4
0
Friday 1 Jun 2018 17:02

امام حسن (ع) کی سیرت کا تجزیہ، موجودہ زمانے کی مشکلات کا حل

امام حسن (ع) کی سیرت کا تجزیہ، موجودہ زمانے کی مشکلات کا حل
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com    

پنجتن پاک کی ایک  کڑی مولا امام حسن
امام حسن (ع) مجتبیٰ کی ولادت پندرہ رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوتی ہے۔ سیدالانبیاء کا امام حسن(ع) سے جو تعلق اور رابطہ ہے، اسے مدینہ کے سب لوگ جانتے ہیں۔ مولا امام حسن کی ولادت کی جو خوشی پیغمبر اکرمﷺ، حضرت فاطمہ(ع) اور مولا علی(ع) کو ہوئی تھی، اس سے بھی مدینہ کے اکثر لوگ آگاہ تھے۔ آیت تطہیر، حدیث کساء، واقعہ مباہلہ، سورہ دہر کے شان نزول، ان سب میں امام حسن(ع) کے شامل ہونے میں کسی کو انکار نہیں تھا۔ امام حسن کا اپنے والد ماجد امیرالمومنین کی تمام زندگی میں ان کا ساتھ دینا اور اپنی صلاحیتوں اور استعداد کا ظاہر کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں، جب ایسا تھا تو لوگوں نے امیرالمونین کی شہادت کے بعد امام حسن کا معاویہ کے خلاف جنگ کرنے میں کیوں ساتھ نہ دیا؟ کن عوامل کی بنیاد پر خود امام حسن(ع) کو معاویہ سے صلح کرنا پڑی۔؟

سیرت امام حسن(ع) کا تجزیہ  کرنیکی ضرورت
اکثر تاریخی کتابوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں، لیکن ان واقعات کے واقع ہونے کے علل و اسباب یا تو ذکر ہی نہیں کئے گئے یا اگر ذکر ہوئے ہیں تو بہت کم مقامات پر ذکر ہوئے ہیں۔ کیا عوامل تھے کہ فلاں شخص، فلاں قبیلہ یا فلاں گروہ اتنا عرصہ حکومت کرتا رہا اور فلاں خاندان یا افراد کو حکومت سے دور رکھا گیا۔ کن عوامل کی بنیاد پر آل محمد جیسی شخصیات معاشرہ میں ہونے کے باوجود، باطل اور ظالم قسم کے لوگ معاشرہ میں حکومت کرتے ہیں۔؟ اکثر لوگ آل محمد کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اس کے برعکس ان سے لاپرواہی کرتے ہیں اور اپنی تمام خدمات  ظالم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، ایسا کیوں ہوا اور ہوتا ہے۔؟ اس کا سبب کیا تھا اور کیا ہے؟ اگر کسی کو ان عوامل اور حالات کا پتہ چل جائے تو اسے یہ معلوم ہو جائے گا کہ لوگوں نے امام حسن اور ان کے بھائی امام حسین کا ساتھ کیوں نہ دیا، بلکہ اس سے بالا تر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ پیغمبر اکرم کی وفات کے فوراً بعد علی کو کیوں حکومت سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جو شخص صحیح بصیرت کے ساتھ ان واقعات کا تجزیہ کرتا ہے، اسے صرف اس زمانے کے حالات کا نہیں بلکہ اِس دور کے حالات کا بھی اچھے طریقہ سے علم ہو جاتا ہے۔

اہلبیت پیغبر اکرم سے لوگ کو بی خبر رکھنا
اعلٰی ظرف اور باکمال لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اہل کمال کی تعریف کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی برتری کے خواہشمند رہتے ہیں۔ پیغمبر اکرم نے جس قدر لوگوں کو زبانی اور عملی طور پر اہلبیت کی عظمت اور شان بتائی ہے، اتنی کسی اور کی نہیں بتائی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب لوگ اہلبیت سے واقف ہوں گے، ان کے قریب ہوں گے، ان کی باتوں اور گفتگو کو سنیں گے، ان کی سیرت، ان کی زندگی، ان کا عمل، ان کا کردار دیکھیں گے تو یہ دیکھنے والے افراد خود بھی باکمال اور اچھے اخلاق و کردار کے مالک بنیں گے۔ امام حسن کے زمانے میں جس کام کو عمومی طور پر اپنی انتہا تک پہنچا دیا گیا تھا، وہ یہ تھا کہ لوگوں کو آل محمد سے بالکل بی خبر اور جاہل رکھا گیا۔ پیغمبر اکرم کی وفات کے صرف تیس چالیس سال بعد عمومی سطح پر لوگوں کو پتہ ہی نہ ہو کہ رسول اللہ کے اہلبیت کون ہیں، دین کے حقیقی وارث کون ہیں؟ جن کی شان میں آیہ تطہیر اتری وہ کون ہستیاں ہیں؟ آیہ مباہلہ کے دستور کے مطابق ابناءنا، نساءنا و انفسنا کا مصداق کون ہیں؟ مباہلہ میں رسول کن ہستیوں کو اپنے ساتھ لیکر گئے؟ پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو ان حقائق سے جاہل رکھا جائے۔

معاویہ کی علی(ع) کے فضائل چھپانے کی تمنا اور اقدامات
ایک دفعہ جب معاویہ سے کہا گیا کہ علی(ع) پر سب و شتم نہ کیا کرے اور اس کو رکوا دے تو اس نے جواب میں کہا کہ خدا کی قسم! جب تک بچے بڑے نہ ہو جائیں اور بڑے بوڑہے نہ ہو جائیں اور زبانوں پر علی کی کوئی فضیلت باقی نہ رہے، اس وقت تک میں اس کام سے باز نہیں آوں گا۔ شام کے لوگوں کی عجیب ذہنیت بنائی گئی، جس کے نتیجہ میں وہ معاویہ کے علاوہ کسی کو اسلام کا نمایندہ نہیں سمجھتے تھے۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی جاتی تھی کی علی(ع) نعوز باللہ چور، ڈاکو، ظالم اور لوگوں کا مال لوٹنے والے ہیں۔ ایسا معاشرہ ترتیب دیا جا چکا ہے کہ جو مولا امیر کی شہادت جب مسجد کوفہ میں ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا علی نماز بھی پڑھا کرتے تھے کہ مسجد میں گئے ہیں؟ امام حسن(ع) اس زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں، جب دشمن اس حد تک لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرچکا ہے، باقی لوگ تو کیا مولا کے ماننے والوں، مولا کے لشکریوں حتی کہ سپہ سالاروں کو مولا کے خلاف کرنے میں بلکہ اپنے ساتھ ملانے میں معاویہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

لوگوں کی بی حسی اور عدم بصیرت
امام حسن(ع) کی زندگی اسلامی تاریخ کا انتہائی عجیب زمانہ ہے، جس میں مولا کی، امام حق ہونے کی شناخت بہت کم لوگوں کو ہے۔ کیا امام نے اپنا تعارف نہیں کروایا، کیا امام نے اسلامی حقائق لوگوں کے سامنے جیسے رکھنے کا حق تھا، ایسا نہیں کیا۔؟ نہ، سب کچھ کیا، لیکن لوگ بصیرت نہیں رکھتے تھے، لوگ صحیح تجزیہ و تحلیل کی قوت و طاقت سے بی بہرہ تھے، یہی وجہ ہے کہ معاویہ نے لوگوں کو اپنے تسلط میں رکھا ہوا تھا۔ امام نے حالات کے تقاضا کے مطابق معاویہ سے صلح کی، بہت سارے لوگ جن کے ذہنوں میں معاویہ کی صرف عظمت بیٹھی ہوئی تھی اور انہوں نے اب تک امام حسن(ع) اور اہلبیت(ع)  کا کردار نہیں دیکھا تھا یا وہ لوگ کہ جو مدینہ میں تھے اور اب تک معاویہ کی صحیح حقیقت ان کے سامنے نہیں تھی، صلح امام حسن(ع) نے ان سب کے لئے ، معاویہ اور بنی امیہ کی اصل حقیقت کو کھول کر رکھ دیا۔ بعض اوقات حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں اور مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ دشمن ترین  افراد کے ساتھ بھی انسان کو صلح کرنا پڑتی ہے اور یہ بات امام حسن کی سیرت سے سب مسلمین کے لئے واضح اور روشن ہے۔ آج اس زمانے میں پوری دنیا  اور خصوصاً پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کے سامنے پیغمبر اکرم کی سیرت اور اہلبیت پیغمبر کی سیرت کہ جو رسول اکرم اور قرآن مجید کی تفصیل اور توضیح  ہے، بہت زیادہ پیش کی جائے۔ اسی بنیاد پر لوگوں کو خرافات اور بدعات سے دور کیا جائے، تاکہ وہ حقیقی اسلام کی لذت اور نور سے کماحقہ استفادہ کرکے اپنے آپ کو بھی اور معاشرہ کو بھی منور کرسکیں۔

صلح اور اتحاد وقت کی اہم ضرورت
پیغمبر اکرم نے کفار مکہ کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی، وہ بھی اسلام کی بقا اور ترقی کے لئے تھی، امام علی(ع) نے پچیس سال جو خلفاء کے زمانے میں گزارے، وہ بھی اسلام کی بقا اور ترقی کے لئے تھے، امام حسن نے جو صلح کی، وہ بھی اسلام کی بقا اور ترقی کے لئے تھی۔ آج  کے زمانے میں کہ جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں امریکہ اور اس کے اتحادی اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کے درپے ہیں، اپنے فرعی اور ثانوی اور ظاہری اختلافات ختم کرتے ہوئے آپس میں صلح کرکے اسلام کی بقا اور ترقی کے لئے کیا ہمیں قدم نہیں بڑھانا چاہئے۔؟ کیا امام حسن(ع) کے ایام ولادت میں ان کی سیرت کا مطالعہ کرکے موجودہ حالات کا تجزیہ و تحلیل نہیں کرنا چاہئے۔؟

تمدن اسلامی کے احیاء کیلئے امت مسلمہ کی وحدت کی ضرورت
کیا اس زمانے میں شیعہ اور سنی کو ملکر یوم القدس کے جلوس میں شامل ہوکر رہبر کبیر جہان،  آیت اللہ امام خمینی( رہ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فلسطین اور قبلہ اول کے لئے متحد ہو کر کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ کیا اس زمانے میں مقام معظم رہبری آیت اللہ خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کی امت مسلمہ کے اتحاد کی کوششیں، تاکہ دنیا کے سامنے اپنے تمام اختلاف کے باوجود تمدن اسلامی اور ثقافت اسلامی کو پیش کیا جائے، اس میں اپنی علمی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔؟ کیا استعماری طاقتیں جو مسلمانوں کی ثقافت اور تمدن کو جنگ و جدال اور کشت و کشتار کی صورت میں آنے والی نسلوں کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں، اس میں امن، اتحاد اور وحدت کی طرف قدم بڑھا کر حقیقی اسلام کی شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب دشمن اس بات تک آگیا ہو کہ عام لوگ تو کیا بلکہ وہ اہل علم، اہل درد، صاحبان فکر، اپنے آپ کو اسلام ناب اور انقلاب اسلامی کا علمبردار و حامی کہلانے والوں کے ذہنوں میں اس قدر وسوسے ڈال چکا ہو کہ وہ قریب آنا تو کیا اب ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے آچکے ہوں اور ایک دوسرے کی تضعیف پر کمر بستہ ہوچکے ہوں تو ان حالات میں قوتوں اور طاقتوں کے ضیاع سے بہتر یہ ہے کہ اپنی حیثیت اور استقلال باقی رکھتے ہوئے صلح اور وحدت کی طرف قدم بڑھایا جائے۔

پاکستان میں علامہ سید ساجد علی نقوی کی امت مسلمہ کی وحدت میں کامیاب کوششیں
موجودہ صدی میں اسلام دشمن طاقتوں نے اپنا سرمایہ جس قدر مکتب تشیع کے خلاف استعمال کیا ہے، اتنا کسی اور کام پر خرچ نہیں کیا۔ انقلاب اسلامی کے اثرات کو روکنے کے لئے تکفیری لشکر بنا کر پاکستان میں کس قدر عظیم ترین لوگوں کو شہید کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر استعماری طاقتیں مقام معظم رہبری مدظلہ العالی سے جس قدر بغض اور دشمنی رکھتی ہیں، اس قدر موجود شخصیات میں سے کسی اور کے خلاف دشمنی اور بغض نہیں رکھتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی نے اور امام و مقام معظم رہبری نے اپنے کردار و عمل سے موجودہ زمانے میں سپر طاقتوں کا انکار کرکے اللہ کی قدرت اور طاقت کو منوایا، امت مسلمہ کو بیدار کیا اور مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی داغ بیل ڈالی۔ ہر سال ہفتہ وحدت اور وحدت کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے، پوری دنیا سے مذہبی سکالر آتے ہیں، لیکن وحدت کی اہمیت پر تقاریر اور مقالے سنا کر چلے جاتے ہیں۔ قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی کے توسط سے اس وقت پاکستان کی پانچ انتہائی اہم  مذہبی-سیاسی جماعتوں کے درمیاں جو اتحاد بنا ہے، وہ صرف سمینار اور کانفرنس کی حد تک نہیں بلکہ عملی میدان میں نظر آرہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے عنوان سے یہ اتحاد جہاں پر  مقام معظم رہبری کے خوابوں کی تعبیر ہے، وہیں پر استعماری طاقتوں، تکفیری گروہوں اور بعض افراطی افراد کی بے چینی کا سبب بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کی مختلف حوالوں سے یہ افراد مخالفتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔

میں نے متحدہ مجلس عمل کے مینار پاکستان کے جلسہ سے قبل کہا تھا کہ یہ جلسہ پاکستان کی تاریخ کا منفرد جلسہ ہوگا اور اس کے بعد بعض ناعاقبت اندیش لوگ علامہ سید ساجد علی نقوی کی اور مولانا فضل الرحمن کی مخالفت ہی کو اپنا ہم و غم بنا لیں گے۔ کیا اس وقت مقام رہبری کی جو کوششیں وحدت کی خاطر ہیں، بعض افراطی افراد ان کے مخالف نہیں ہیں، کیا امام حسن کی صلح کے بعد امام کو نعوذ باللہ "یا مذل المومنین" کہہ کر نہ پکارا گیا۔ عظیم کاموں کے لئے عظیم لوگوں کو قدم بھی عظیم ہی اٹھانا پڑتے ہیں، جو کچھ عرصہ تک عام لوگوں کے درک و فہم سے بھی باہر ہوتے ہیں۔ یہی یوم القدس جسے ہر سال پاکستان میں اور ایران میں امام خمینی(ہ) کے حکم کے مطابق فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مخالفت میں منایا جاتا ہے، کتنے شیعہ حضرات اور وہ بھی اہل علم اس کی مخالفت کرتے تھے، لیکن اب سب اس کے حق میں ہیں، حقیقت اور افادیت کا پتہ اتنے سالوں کے بعد چلا ہے۔ اسی طرح قائد ملت جعفریہ نے اپنی دانائی سے ملت کو بلندی اور کمال کے جس مقام پر پہنچا دیا ہے، اس کی افادیت اور اہمیت لوگوں کو کئی سال گزرنے کے بعد معلوم ہوگی، ممکن ہے آج بعض فکری نابالغ افراد ان پر اعتراض کریں، لیکن چند سالوں کے بعد واضح ہوگا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی زمان معاصر میں ان چند افراد میں سے ہیں، جو انگلیوں پر گننے سے بھی کم ہیں، جن میں سے ایک سید علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو امام حسن کے صدقہ میں امت مسلمہ میں وحدت و اتحاد کو سمجھنے اور اس کے لئے کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 728822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت ہی اچھا تجزیہ ما شاء اللہ خدا مزید توفیق دے، حقیقی بصیرت افزائی کرتے رہیں۔ شکریہ
Iran, Islamic Republic of
میرا خیال ہے پھر بھی فضل الرحمان اور ساجد میر یوم القدس کے جلوسوں میں نظر نہیں آئیں گے، ملک صاحب ایسے ہی گیت گا رہے ہیں۔
ملک صاحب کی بات بلکل درست. میرا بھی وعده ہے جس دن ہم اور آپ لوگ تحفظ حرمین کی ریلی میں شریک ہوۓ، وہ لوگ بھی یوم القدس میں شریک ہوں گے۔ فضول قسم کی بات اور فضول قسم کی توقع کرنا عقلمندانہ شیوہ نہیں، اتحاد و وحدت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمارا مخالف اپنے عقیده سے دستبردار ہو جاۓ یا ہم اپنے اعتقاد کو چھوڑ دیں۔
India
مولانا صاحب بہت زیادہ اچھا آپ نے لکھا، پڑھ کر بہت آپ یاد آئے۔
میں صفدر حسین ہندوستان سے
امام علی قم
ہماری پیشکش