0
Wednesday 6 Jun 2018 12:27

شب قدر نصیبوں والی رات

شب قدر نصیبوں والی رات
تحریر: میم نون خان
 
حیدر اور مریم اپنے دونوں چھوٹے بچوں قاسم اور زینب کے ھمراہ شب قدر کے اعمال انجام دینے کیلئے شھر کی مسجد میں گئے، واپسی پر دونوں میاں بیوی نے بچوں سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا تو 11 سالہ زینب فوراً بولی، ابو جان مولانا صاحب نے کہا تھا کہ شب قدر کی عظمت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس رات قرآن نازل ہوا "انا انزلنه فی لیلة القدر" کتنا با عظمت ہے یہ ذکر (قرآن) کہ اگر ایک رات میں نازل ہو جائے تو پورا مہینہ بابرکت بن جاتا ہے اور دوسری طرف اگر ایک ذات مصطفٰی پر نازل ہو جائے تو پورا گھرانہ با برکت بن جاتا ہے سب نے بلند آواز میں صلوات پڑھی اپنی حوصلہ افزائی ہوتی دیکھ کر زینب نے دوسرا نکتہ بیان کیا۔ "ما ادراک ما لیلة القدر" جب اللہ کہتا ہے کہ یہ قرآن جس رات میں نازل ہو جائے تو اے بشر؛ تم میں اتنی طاقت نہیں کہ اس رات کی بلندی و عظمت کو سمجھ سکو، تو اس ذات مصطفٰی کی عظمت کو کیسے سمجھ سکتے ہو جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔ اب دونوں میاں بیوی نے 13 سالہ قاسم کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا تو قاسم نے کچھ سوچ کر جواب دیا، آج سکول میں ہمارے ٹیچر نے کہا تھا کہ شب قدر رحمتوں برکتوں عظمتوں اور انعامات کے سمندر کی رات ہے لیکن اس فیض کے سمندر سے اُسکو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جسکا دل آمادہ ہو اس پر تالے نہ لگے ہوں، لیکن اگر اسکا دل دنیا کی محبت سے بند ہو چکا ہے تو اس بوتل کی طرح جسکا منہ کسی چیز کے ساتھ سختی سے بند کر دیا جائے اور پھر اسکو اگر سمندر میں بھی پھینک دیا جائے تو ایک قطرے سے بھی وہ بوتل سیراب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر دل گناہوں کیوجہ سے بند ہے تو شب قدر کی سمندر سے بھی زیادہ برکات کا دل تک پہنچنا ناممکن ہے۔
 
دونوں میاں بیوی نے تحسین آمیز آنکھوں سے قاسم کی جانب دیکھا اور قاسم نے "خیر من الف شھر" کی تفسیر میں مزید کہا کہ اس رات ہزار مہینوں یعنی 80 سال کا سفر ایک رات میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ تکبر، فخر، حسد، جھوٹ، چوری وغیرہ کا اضافی سامان پھینک کر سفر کیا جائے۔ اس رات قرآن کی شکل میں ایک خط خدا کا بندے کی طرف آیا ہے تاکہ بندہ ایک خط دعا مناجات و استغفار کا خدا کی طرف بھیجے۔ دونوں میاں بیوی نے اٹھ کر اپنے بچوں کا بوسہ لیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جس نے انکو بچوں کی اچھی تربیت کی توفیق عطا فرمائی، زینب نے ماں کی طرف دیکھا اور بولی امی جان اب آپکی باری ہے، بتائیں مولانا صاحب نے شب قدر کے بارے میں کیا کہا تھا؟ مریم مسکرائی اور بولی؛ مولانا صاحب نے کہا تھا جسطرح جب ایک ملک مثلاً پاکستان کا صدر کسی دوسرے ملک مثلاً ہندوستان جائے تو پورے ملک کے ایک ارب سے زیادہ افراد کا احترام نہیں کر سکتا، تو کیا کرتا ہے کہ اس ملک کے ایک سمبل پرچم کا احترام کرتا ہے تو گویا اس نے ارب سے زیادہ افراد کا احترام کر لیا، اسی طرح خداوند عالم نے ہم پر جو نعمتیں لطف و کرم اور انعامات نازل کئے ہیں، اس کے بدلے میں حق یہ بنتا ہے کہ زمین کے ذرے ذرے پر، زندگی کے ایک ایک سانس میں، ہر ہر لحظے اسکے سامنے سربسجود ہو جائیں لیکن چونکہ یہ ممکن نہیں، اس لئے خداوند عالم نے ایک سمبل اور علامت ہمارے لئے شب قدر کی شکل میں قرار دی کہ اگر حقیقی معنوں میں اسکا حق ادا کر دیا تو گویا از اول خلقت تا قیامت زمین کے ذرے ذرے پر سجدہ ریز ہو گے۔
 
اچانک چونک کر قاسم بولا کہ یاد آیا مولانا صاحب نے کہا تھا کہ آج رات مولا علی علیہ السلام کی شہادت ہے اس لئے انکے قاتل پر لعنت بھیجنے کا فلسفہ یہ ہے کہ دشمن قرآن و اہلبیت اور دشمن اسلام سے نفرت کا اظہار کیا جائے اور اس کا آج سب سے بڑا مصداق امریکہ اور اسرائیل ہے اس لئے ابن ملجم پر لعنت کے ساتھ ساتھ مردہ باد امریکہ کہنا اور جو لوگ امریکہ و اسرائیل کے خلاف حالت جنگ میں ہیں انکی کامیابی کی دعا کرنا بھی ضروری ہے۔ زینب بولی، قاسم بھائی اس نکتے کو تو ہم بھول ہی گئے کہ مولانا صاحب نے کہا تھا ہر چیز کی اہمیت و قیمت اس چیز سے ہے جو اسکے اندر ہوتی ہے، جس طرح اگر کسی جگہ پر کوئی سیاسی یا مذہبی جلسہ ہو تو اس جلسے کی اہمیت اور اس جلسے کی شان و شوکت وہاں پر موجود افراد اور خصوصاً باہر سے آنے والے مہمان خصوصی یا خطیب سے ہوتی ہے، حتٰی سامعین تو وہ ہی ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی مقامی مولوی یا کونسلر خطاب کرے تو اور بات ہوتی ہے اور اگر اسی جلسے میں ملکی مذہبی لیڈر یا وزیراعظم شرکت کرے تو اسکی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پس ماہ رمضان کی اہمیت کس وجہ سے ہے فرمایا "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" جس میں قرآن نازل ہوا اور شب قدر کی اہمیت کس وجہ سے ہے؟ فرمایا "انا انزلنہ فی لیلة القدر" جس میں قرآن نازل ہوا۔

اسکے بعد فوراً ہی قاسم نے حیدر سے سوال کیا کہ ابوجان وہ مولانا صاحب نے جو شب قدر اور روز قیامت کے آپس کے تعلق کی بات کی تھی وہ مجھے سمجھ نہیں آئی تھی ذرا وضاحت فرمائیں گے؟ حیدر بولا، بیٹا قرآن نے لیلة القدر کو "رات" سے تعبیر کیا ہے، جبکہ روز قیامت کو "دن" سے، شب قدر  میں فرشتے و روح کا آسمان سے نزول ہے، تنزل الملائکه جبکہ روز قیامت فرشتے و روح تعرج الملائکه اوپر کی جانب سفر کریں گے، چاند کا تعلق رات سے ہے اور اس کی حرکت ایک مہینے میں مکمل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ہزار مہینوں سے افضل ہے جبکہ روز کا تعلق سورج اور اسکی حرکت سالانہ ہے اس لئے قرآن نے روز قیامت کے بارے میں 50 ہزار سال کی تعبیر استعمال کی ہیں۔ "فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة"۔ پس ایک تعبیر کے مطابق قیامت دن ہے تو دنیا رات و ظلمت اور عالم مادہ ہے، جب فرمایا کہ قرآن شب قدر میں نازل ہوا تو مراد یہ ہے کہ قرآن اس دنیا و عالم مادہ میں نازل ہوا، اس عالم مادہ کی خصوصیت ہے کہ دیوار کی دوسری طرف نظر نہیں آتا لیکن قیامت روز ہے اور سب کچھ واضح نظر آئے گا، دنیا میں خدا ستارالعیوب ہے لیکن روز قیامت یوم تبلی السریر۔۔۔۔۔ ہے روز قیامت سے مراد یہ نہیں کہ یہ سورج موجود ہو گا کیونکہ قیامت سے پہلے "جُمِعٙ الشّمسُ و الْقٙمٙر" سب کچھ فنا ہو جائے گا پس روز قیامت میں روز یعنی دن سے کیا مراد ہے؟ تو اس سے مراد ہے "یُعرٙفُ المُجرِِمونٙ بِسِیمٙاھُم" جسکے چھرے کی طرف دیکھیں گے اسکی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ قیامت یعنی "کشفنا عنک غطاءک فبصرک الیوم" حدید پردے ہٹ جائیں گے، اس لئے میرے بچوں ہمیں ہر عمل انجام دیتے ہوئے نیت خالص رکھنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 729760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش