0
Friday 27 Jul 2018 14:35

قیام ِامن کی نیکی اور سفیران ِامن کا اعزاز

قیام ِامن کی نیکی اور سفیران ِامن کا اعزاز
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com 


جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے، تب سے امن اس کی ضرورت رہا ہے۔ دستیاب تاریخ میں ہابیل اور قابیل کے زمانے سے قتل اور اذیت کے نتیجہ بدامنی رہا اور صبر و تحمل کا نتیجہ امن بنا۔ امن کو خالق نے انسانی ضرورت کا ساتھ فطرت کا لازمہ بنایا ہے۔ جاہل سے جاہل انسان اور بظاہر بے عقل و بے زبان چوپائے بھی امن کے زمانے میں اپنے آپ کو عافیت میں محسوس کرتے ہیں، جبکہ بدامنی کے دور میں یہ دونوں طبقات بھی اپنے آپ کو اذیت میں پاتے ہیں۔ یعنی پرسکون و پرامن ماحول ہر ذی روح کے لئے فطری طور پر حسین اور خوشگوار احساس کا باعث ہے۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے، اس لئے اس کے بھیجنے والے نے پہلے تو اس کے نام کا انتخاب بھی اسی عنوان کے تحت فرمایا پھر اس کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد بدامنی، بے چینی، بدنظمی، بدچلنی، بدتہذیبی، بے حیائی اور بے شعوری سے اٹی ہوئی دنیا کو امن، چین، سکون، راحت، نظم، نظام، تہذیب اور حیاء و شعور کا پیغام دینا قرار دیا۔ اسلام کی بانی اور حامل وحی نبی ؐ کو امن کا پیغمبر، امن کی علامت، امن کا رہبر اور امن کا عملی پرچاک بنا دیا اور خطہ ارضی یعنی میں سب سے محترم و متبرک مقام یعنی اپنا گھر (کعبۃ اللہ) کو جائے امن قرار دے دیا۔

اس کے ساتھ اپنی جانب سے بھیجے گئے انبیاء و رسل اور برگزیدہ لوگوں آدم ؑ سے محمد ؐ تک اور اس کے بعد رہتی دنیا تک آنے والے ہر انسان کو پابند بنا دیا کہ وہ نہ صرف خود ذاتی طور پر پرامن رہے اور امن کی زندگی گذارے بلکہ اپنے اردگرد زمانے اور معاشرے میں امن کے قیام کو پہلی اور اولین ترجیح کے طور پر گذارے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی، رسول، پیغمبر، برگزیدہ ہستی، نیک انسان اور باشعور و با علم شخص نے امن کے قیام کا سبق اس قدر راسخ ہو کر یاد رکھا کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ہر قسم کا ذاتی، گروہی، خاندانی اور دیگر نقصان برداشت کر لیا، لیکن امن کے قیام سے پہلوتہی اور روگردانی نہیں کی۔ مطلب یہ ہوا کہ امن کے قیام کی بات کرنا، امن کے قیام کی کوشش کرنا، امن کے قیام کے لئے آمادگی قائم کرنا، امن کے لئے لوگوں کو قائل و مائل کرنا اور امن کے قیام کو اپنا اصلی ہدف قرار دینا سب سے پہلے اللہ کا حکم ہے، پھر انبیاء و رسل کی سنت ہے، پھر عام انسان کی ذمہ داری و ضرورت ہے۔

تاریخ کے تمام ادوار میں وہ لوگ قابلِ ستائش ہیں، جنہوں نے امن کے قیام کے لئے خلوصِ نیت و خلوصِ قلب کے ساتھ خدمات انجام دیں اور اس راستے میں بے شمار مصائب، آلام، پریشانیاں اور رکاوٹیں برداشت کیں اور خوش بخت و خوش نصیب ہیں، اس زمانے اور اس دور کے وہ لوگ جو امن کے قیام کی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی ذمہ داری کو پورا کرنے کا بیڑا ادارہ امن و تعلیم Peace and Education Foundation اسلام آباد نے گذشتہ بیس سال سے اٹھایا ہوا۔ اس ادارے نے امن کے قیام اور تعلیم و تحمل کے فروغ کے لئے حیران کن اقدامات اٹھائے ہیں، جس کی توقع حکومتوں اور ریاستوں سے کی جا رہی تھی۔ نہ صرف یہ قدم اٹھائے گئے بلکہ انہیں کامیاب سمت میں منزلِ مقصود تک پہنچایا گیا۔ امن کے قیام میں ہمیشہ حکومتی مشینری اور ادارے عوام اور عوامی اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ مختلف ہوا کہ مذکورہ ادارے نے اپنی کوششوں، کاوشوں اور خدمات و اقدامات کے ذریعے حکومتوں کی رہنمائی کی، حکومتوں کے راستے ہموار کئے، حکومتوں کے لئے زمینہ سازیاں کیں، حکومتوں کے لئے ماحول بنایا اور شدت پسندی و شدت پسندوں کے اندر گہرا نفوذ کرکے امن کے راستے نکالے، جس کی ایک علیحدہ طویل تاریخ ہے۔

اسی ادارے نے اپنے اس کارِ خیر میں معاونت کرنے والے بلکہ حقیقت میں قیادت کرنے والے افراد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے گذشتہ دنوں ’’سفیرانِ امن اعزاز‘‘ یعنی Peace Maker Award کے نام سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اقبال کانفرنس ہال میں ایک دلربا، جاذب، منفرد، پرشکوہ اور بامقصد تقریب منعقد کی، جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز اور ادارے کے سربراہ اظہر حسین سید نے کی۔ یورپی یونین کے سفیر محترم جین فرانکوائس، اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یسین زئی اور دیگر حضرات مہمانانِ خصوصی تھے۔ اس اجتماع میں اسلامی مسالک میں سے اہل تشیّع، اہل حدیث، جماعت اسلامی، بریلوی اور دیوبندی کے جید علماء اور انہی مسالک کی دینی و سیاسی جماعتوں کی مختلف سطح کے عہدیداران، اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ میں شامل تمام مسالک کے دینی مدارس کے نمائندہ اساتذہ و طلباء، پاکستان میں موجود دیگر مذاہب یعنی مسیحی، ہندو اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی قائدین و عمائدین، سماجی سطح پر کام کرنے والی نوجوان تنظیموں کے ذمہ داران، ملک کے مختلف غیر سرکاری اداروں کے نمائندگان، امن کے قیام میں کوشاں دیگر این جی اوز کے نمائندگان، سیاسی و سماجی، مسلکی و مذہبی اور ملکی و معاشرتی میدان میں امن، رواداری، محبت، اخوت، برداشت اور تحمل کو فروغ دینے والے تمام عناصرشامل تھے۔

ادارے نے چونکہ اس نوعیت کی تقریب پہلی مرتبہ منعقد کی، اس لئے ذمہ داران نے اپنے ادارے کے قیام سے لے کر اب تک گذشتہ عرصے میں امن کے قیام اور رواداری کے فروغ کے لئے مختلف جہات سے خدمات انجام دینے والے سفیرانِ امن کا انتخاب پوری دقت اور عرق ریزی سے کیا۔ پورے ملک سے مجھ سمیت چالیس لوگوں کو اس اعزاز کا حق دار قرار دیا گیا کہ انہیں ان کی خدمات پر سراہے جانے کی غرض سے ایک ایوارڈ سے نوازا جائے۔ ان چالیس افراد میں مختلف مذاہب و مسالک کے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہیں۔ فطری اور بشری تقاضہ ہے کہ انسان کی کوششوں کو اگر دوسرے انسان مثبت سمت میں لیں، انہیں محسوس کریں، ان کی قدردانی کریں اور اس قدر دانی کا اظہار بھی نہایت نظم اور خوبصورتی سے کریں تو اس عمل سے جہاں انسان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہاں اسے اپنی محدود خدمات پر فخر اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہاں ان خدمات کو جاری رکھنے کی عزم اور جذبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح اس قسم کے کارہائے خیر میں وسعت کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر یہ سارا عمل انسانی معاشرے کی بقاء کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے۔

بالا سطور رقم کرنے کا مقصد خود نمائی یا خود ستائشی ہرگز نہیں (جو فطری طور پر اور ذاتی طور پر مزاج کے خلاف ہے) نہ ہی کسی تقریب کی کوریج مطلوب ہے بلکہ امن جیسی نیکی کی ترویج اور امن کے لئے خدمات انجام دینے والے لوگوں کی خدمات کا اعترف مقصود ہے۔ ان نیکوں کی نیکیوں کو دوسرے نیکوں تک منتقل کرنے کی سعی ہے اور بدامنی و بے چینی، قتل و غادت گری، شر و فساد، عدم برداشت و عدم رواداری، مذہبی و مسلکی اختلاف میں شدت پسندی کے عنصر، بات بات پر کفر اور قتل کے فتووں اور جہالت و بے شعوری میں پھنسی اور گھِری دنیا تک امن و محبت و رواداری کا سندیسہ بھجوانے کی کوشش ہے، تاکہ ہمارے نام ہابیل قابیل کی تاریخ میں قاتل و جارح طبقے میں نہیں بلکہ مظلوم و مقتول و پرامن طبقے میں لکھا جائے۔ ادارہ امن و تعلیم کی طرف سے تقسیمِ اعزازِ سفیرانِ امن کی تقریب میں اعزاز کی وصولی کے بعد اعترافِ حقیقت کے عنوان سے لکھے گئے اشعار۔ جنہیں حاضرین و موجودین کے علاوہ ملک بھر سے دوستوں نے پسندیدگی و پذیرائی سے نوازا۔

اعترافِ حقیقت
از سید اظہار بخاری

روز اِس شہر میں رقصاں نئی وحشت دیکھی
انتہاؤں سے بھری باہمی نفرت دیکھی 
خطِ افلاس سے نیچے کہیں غربت دیکھی
علم کے دعووں میں سربستہ جہالت دیکھی
فیصلہ سازوں میں حد درجہ حماقت دیکھی
سچ کو سچ کہہ دے، کسی میں نہیں جرات دیکھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مذہب سرِ بازار ہی بکتے دیکھا
میں نے مسلک سرِ دربار ہی جھکتے دیکھا
میں نے مشرب درِ اغیار پہ لُٹتے دیکھا
میں نے مکتب سرِ محراب ہی پِستے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زدِ بارود میں ہر پیر و جواں لایا گیا
بادِ مسموم میں ہر حاملِ جاں لایا گیا
چارہا سمت سے سامان ِ زیاں لایا گیا
زندگی کے لئے پیغام کہاں لایا گیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلکی زہر میرے ملک میں یوں گھولا گیا
میں ہی مسلم، سبھی کافر، جا بجا بولا گیا
اس طرح امن کو ہر پاؤں تلے رولا گیا
اِس روّیے کو صد افسوس نہیں تولا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اس ارض کے منظر کو بدلتے دیکھا
غمزدہ لوگوں کی قسمت کو سنورتے دیکھا
موسمِ صلح کو لمحوں میں نِکھرتے دیکھا
شہر میں امن کی خوشبو کو بِکھرتے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امن و تعلیم کی صورت میں اُجالا آیا
پیار کا، صلح کا، چاہت کا حوالہ آیا
مرگئے لوگوں میں جینے کا سلیقہ آیا
تازہ، پر کیف ہوا کا نیا جھونکا آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لے کے پیغامِ مروّت یہ سفینہ آیا
نئے انداز سے جینے کا قرینہ آیا
سچ تو یہ ہے کہ قرینہ نہیں، جینا آیا
دستِ خالی میں تحمل کا خزینہ آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلِ مذہب کو نیا ڈھنگ، بتایا اس نے
دینِ حق کتنا ہے خوش رنگ، دکھایا اس نے
بکھرے لوگوں کو ہم آہنگ، کرایا اس نے
کہنہ ذہنوں میں جما زنگ، ہٹایا اس نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے انسان کو انسان سمجھنا سیکھا
احترامِ ہمہ ادیان سمجھنا سیکھا
ساتھ رہنے کا ہر امکان سمجھنا سیکھا
قرب و خوشنودی رحمن سمجھنا سیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھنگ برداشت کا بس ہوگیا ازبر تم سے
ہر رویہ میرا ہے لطف کا مظہر تم سے
چشمِ تاریخ نے دیکھا نہیں بہتر تم سے
میری ہستی ہے فقط ظاہر و اظہر تم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیئے از سرِ نو مل کے حمایت کر لیں
خود کو پابندِ امن او ر محبت کر لیں
سب کے سب امن صحیفے کی تلاوت کر لیں
امن و تعلیم سے اظہار مودّت کر لیں
اس سے پہلے کہ یہ ہستی ہی گماں ہو جائے
زیرِ خاک آن میں یہ جسم یہ جاں ہو جائے
خبر کا کوڈ : 740617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش