0
Monday 13 Aug 2018 23:00

پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی شادی کا مستقبل

پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی شادی کا مستقبل
رپورٹ: ایس حیدر

پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کی حال ہی میں ہونے والی سیاسی شادی جب تک بھی چلے، لیکن چلے گی تو اسی طرح سےِ جس طرح ایسی پہلے سیاسی شادیاں چلتی رہی ہیں، کیونکہ یہ کوئی پہلی سیاسی شادی تو ہے نہیں، ایسی سیاسی شادیاں پہلے بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوتی ہو چکی ہیں، ان پر اگر ایک نگاہ واپس ڈالی جائے تو پوری کہانی سمجھ آجائے گی، ایم کیو ایم جب متحد تھی تو پیپلز پارٹی کی صوبائی و وفاقی حکومتوں میں شامل رہی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی شریک اقتدار رہی، لیکن کسی نا کسی وجہ سے یہ سیاسی اتحاد ختم ہوتا رہا، اس کی وجوہات مختلف قسم کی ہو سکتی ہیں، بلکہ بعض اوقات تو ایم کیو ایم بغیر کسی وجہ کے بھی روٹھ کر حکومت سے الگ ہو جاتی رہی ہے، وزارتوں سے استعفیٰ دیدیا اور پھر جلد یا بہ دیر مان بھی گئی، پیپلز پارٹی نے متحدہ کی واپسی کیلئے اپنے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو رکھا ہوا تھا، جب صلح کی مقامی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں، تو رحمان ملک لندن جاتے اور پھر چند دن بعد ایم کیو ایم کو ایڈوائس آجاتی کہ پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں اور وہ کسی چوں چرا کے بغیر ایسا کر دیتی۔ ایک بار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے وزیر داخلہ سندھ ہوتے ہوئے قرآن اٹھا کر کچھ کڑوے سچ بول دیئے تھے، لیکن اس سے متحدہ کا تو کچھ نہ بگڑا، البتہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی صوبائی وزارت بھی گئی اور آصف علی زرداری کے ساتھ عشروں پر محیط دوستی بھی ختم ہوگئی اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو دوستی کے کوچے سے باہر نکلنا پڑا۔ اب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے راستے بھی جدا جدا ہیں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بھی۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اگرچہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے ہیں، تاہم ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پانچویں بار الیکشن جیت کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

پرانی ایم کیو ایم اور نئی ایم کیو ایم ایک جوہری فرق ہے، جو لوگ بھی پرانی ایم کیو ایم کا دم بھرتے ہیں، وہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم لندن کا حصہ ہیں، جبکہ نئی ایم کیو ایم نے اپنے نام کے ساتھ پاکستان کا لاحقہ لگا لیا ہے، ایم کیو ایم سے نکلے والا ایک گروہ ایم کیو ایم کے باغی رہنما و سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی کے نام سے کام کر رہا ہے، لیکن اس جماعت کو حالیہ عام انتخابات میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ البتہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس اس وقت قومی اسمبلی کی سات نشستیں موجود ہیں۔ ویسے تو یہ زیادہ نہیں، لیکن وفاق میں حکومت سازی کیلئے تحریک انصاف جس کیفیت سے دوچار ہے، یہ نشستیں بھی بڑی فیصلہ کن ہیں، نہ جانے جہانگیر ترین نے کتنی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان کو تحریک انصاف کا ساتھ دینے پر راضی کیا تھا، لیکن پی ٹی آئی کراچی ڈویژن کے صدر و نومنتخب رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے ایسے وقت سچ بول دیا، جب دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت تھی، ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب اس پر احتجاج ہوا تو انہوں نے دوبارہ کہہ دیا کہ کچھ غلط نہیں کہا۔ سچ ہی تو بولا ہے، لیکن یہ ایسا سچ ہے کہ ایم کیو ایم ابھی سے بگڑ جائے تو حکومت کی بات بھی بنتے بنتے بگڑ سکتی ہے، اسی لئے پی ٹی آئی قیادت نے فردوس شمیم نقوی سے فی الفور وضاحت طلب کرتے ہوئے بازپرس کی۔

خیر یہ تو تحریک انصاف کے گھر کا معاملہ ہے، وہ چاہے تو فردوش شمیم نقوی کو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بنا دے اور نہ چاہے تو سارے معاملے پر مٹی ڈال دے، لیکن اتنا تو طے نظر آتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان قائم ہونے والا تازہ تعلقات ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہیں گے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے رحمان ملک کو مستقل طور پر یہ فرض تفویض کر رکھا تھا کہ جب بھی ایم کیوایم ناراض ہو تو اسے منانے کا مشن خودکار طریقے سے سنبھال لیں اور اسے منا کر ہی دم لیں۔ لہٰذا تحریک انصاف کو بھی کوئی ایسا فل ٹائم بندہ اس کام پر متعین کرنا ہوگا، جہانگیر ترین یہ کام خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں، لیکن ان کے ذمہ چونکہ اور بھی بہت سارے فرائض ہونگے، اس لئے انہیں شاید روٹھے ہووں کو منانے کی زیادہ فرصت نہ ملے، ویسے ان کا کام رحمان ملک کی نسبت آسان ہے، کیونکہ رحمان ملک کو تو بھاگم بھاگ لندن جانا پڑتا تھا، لیکن تحریک انصاف اپنے جس رہنما کو بھی اس کام کیلئے مختص کرتی ہے، اسے تو زیادہ سے زیادہ کراچی تک ہی جانا پڑے گا، کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کی ساری اعلیٰ قیادت یہیں کراچی میں ہی ہے، لیکن ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ فردوش شمیم نقوی کے سپرد ہرگز نہ کیا جائے، ورنہ وہ بنا بنایا کھیل بھی بگاڑ سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے علاوہ نامزد گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی یہ ذمہ داری بااحسن خوبی نبھا سکتے ہیں، کیونکہ ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات کافی بہتر نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی شادی جیسے بھی چلے، اسکا مستقبل جیسا بھی رہے، لیکن پاکستان کی معاشی شہ رگ حیات کراچی کی بہتری اسی میں ہے کہ یہ سیاسی شادی اچھے کے انداز میں چللتی رہے۔
خبر کا کوڈ : 744425
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش