0
Friday 31 Aug 2018 17:28

امامت و ولایت (5)

امامت و ولایت (5)
تحریر: میجر (ریٹائرڈ) محمد نصیر

پیغمبر اکرم (ص) دینِ خدا کے تمام حلال و حرام، تمام واجبات و محرمات، تمام امر و نہی پہنچا چکے اور آخری حج ادا کرنے کے بعد واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اللّٰہ نے رسول (ص) کو قرآن کی آیت کے ذریعے ایک واضح اور محکم حکم دیا ۔۔۔۔ ارشاد قدرت ہوا، ترجمہ: "اے رسول (ص) اس امر کو لوگوں تک پہنچا دو۔ جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اور اگر تم نے اس امر کی عملی تبلیغ نہ کی تو یوں سمجھنا کہ تم نے خدا کا کوئی کار رسالت انجام دیا ہی نہیں، خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا"۔ (سورہ مائدہ-ع۔۴) عالم اسلام کے سب مستند و معتبر مفسرین و محدثین اور مؤرخین کا اس امر پر اتفاق پے  کہ یہ آیت ۱۸ ذی الحج ۱۰ ھجری کو بمقام غدیر خم جنابِ رسالت مآب پر جناب علی (ع) کے بارے نازل ہوئی۔

جب آپ آخری حج ادا کرنے کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر در منشور، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸، طبع مصر میں باسناد ابن ابی حاتم و ابن عساکر و ابن مردویہ ابی سعید خدری اور باسناد ابنِ مردویہ ابنِ مسعود سے روایت کرتے پیں کہ ان دو اصحابِ رسول (ص) کا بیان ہے، "ھم عہد رسالت مآب میں اس آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے، اے رسول (ص)! جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے کہ علی (ع) مومنوں کے مولا ہیں، اسے پہنچا دو۔
ایسا ہی تفسیر مظہری اور فتح البیان، جیب السیر اور ارجح المطالب وغیرہ میں مذکور ہے۔ واحدی نے اسباب النزول صفحہ ۱۵۰ پر باسناد خود ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ "نزلت ھذہ الآیة یومِ غدیرخم فی علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ" یعنی یہ آیت مبارکہ غدیر خم کے دن علی (ع) کے حق میں نازل ہوئی۔ اسی طرح فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد۔ ۳ صفحہ ۶۳۶ میں  بیان کیا ہے، ترجمہ  "یہ آیت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی اور اسے ابن عباس و براء بن عازب اور محمد بن علی (ع) (امام باقر عیلہ السلام) کا قول قرار دیا ہے۔

تقریب عید غدیر:
رسول (ص) ایسی ہستی ہیں جو واجب تو واجب، مستحب امورات کے انجام دینے میں ذرا بھر تقصیر و کوتاہی نہیں فرمایا کرتے تھے۔ وہ ایسے تہدید آمیز وجوبی حکم خدا کی انجام دہی میں کیسے سہل انگیزی کر سکتے تھے۔ جس کی عدم بجا آوری سے تمام کار رسالت کے ضائع ہونے کا فقط شدید خطرہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقامِ غدیر میں اس آیت کا نزول ہوا تو باوجود اسکے کہ شدید گرمی تھی سایہ کا کوئی انتظام نہ تھا، عام لوگ ظاھری شدت گرمی سے اور بعض الناس اس کے علاوہ اندرونی آتش حسد سے کباب ہوئے جاتے تھے لیکن رسول (ص) نے ان امور کی پرواہ نہ کی اور خود وہیں رحلت اقامت ڈال دیا۔ اور پالانوں کا منبر تیار کر کے اس فریضہ کی تبلیغ سر انجام دی۔ مؤرخین و محدثین نے اس وقت کا نقشہ بالفاظ  یوں کھینچا ہے، ترجمہ: "وہ اٹھارہ ذی الحج ۱۰ ھجری کا دن سخت گرمی کا دن تھا، یہاں تک کہ آدمی اپنی چادریں زیرپا بچھاتے تھے اور سروں پر شدید گرمی پڑ رہی تھی، لوگ اپنی سواریوں کے سایہ میں پناہ لے رہے تھے۔

رسول (ص) نے وہیں ڈیرہ ڈال دیا اور سامان سفر اور اونٹوں کے پالان جمع کر کے ایک منبر تیار کیا اور اس پر تشریف لے جا کر لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد فرمایا، "الست اولی بکم من انفسکم قالو بلی قال من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ترجمہ اے مسلمانو! کیا میں تمہارے نفسوں سے زیادہ تم پر حق حکومت و تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا ہاں یا رسول اللہ! بے شک ایسے ہی ہے۔ فرمایا ! جس کا میں حاکم و سردار ہوں اس کا علی (ع) بھی حاکم و سردار ہے۔
اس فریضہ کی انجام دھی کے بعد خدا کی طرف متوجہ ھو کے دعاء کی بار الہا! جو شخص علی (ع) سے دوستی رکھے تو اسے دوست رکھ  اور جو ان سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر۔ جو ان کی نصرت کرے تو ان کی نصرت کر۔ تفسیر در منشور میں مذکور ہےکہ آنحضرت (ص) جب اھم فریضہ سے سبکدوش ہو چکے تو فوراً  جبرائیل امین (ع) یہ آیہ مبارکہ لے کے نازل ہوئے، "الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا" آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کر لیا (درمنشور طبع مصر، تذکرہ سبط ابن جوزی طبع ایران، تفسیر ابن کثیر طبع مصر)  تمام قارئین کو عید سعید غدیر مبارک ہو ۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 747191
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش