0
Sunday 14 Oct 2018 12:00

کلین اینڈ گرین پاکستان مہم

کلین اینڈ گرین پاکستان مہم
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

دین اسلام ایک باکمال اور خوبصورت دین ہے جس نے قلب و بدن کی طہارت پر شدت سے زور دیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [المائدة: 6] اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمھیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے۔ تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔ اسی طرح دین اسلام نے مقامات عبادت کو شرک و غلاظت سے پاک کرنے کا حکم دیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [الحج: 26]. اور میرے گھر کو طواف، قیام اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنےرسولوں کو صفائی قلب کے ساتھ متصف کیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم سے متعلق فرماتے ہیں: إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [الصافات: 84]. جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل لائے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تقوی اور اہتمامِ طہارت کے با وصف قرآن کریم میں اہل قبا کی تعریف فرمائی۔ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا[التوبة: 108]. البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہےوہ اس لائق ہے کہ آپ اس پر کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [البقرة: 222]. اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ طہارت نماز کی کنجی ہے۔ طہارت کے بغیر نماز شروع نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخلہ طہارت اور پاکیزگی پر موقوف فرمایا ہے۔ جنت میں صرف پاک صاف لوگ داخل ہوں گے۔ فرمایا: سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ [الزمر: 73] تم پر سلام ہو، تم خوشحال رہوتم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔ دل کی پاکیزگی دخول جنت کی بنیادی شرط ہے۔ فرمان عالیشان ہے: يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [الشعراء: 88، 89]. جس دن کے مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والاوہی ہو گا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔ 

جسموں کی طرح دل بھی بیمار اور تندرست، مردہ اور زندہ ہوتے ہیں۔ جب دل کو گندگی سےدور کیا جاتا ہے وہ رحمت و بھلائی سے بھر جاتا ہے۔ اسلام نے صحت قلب کے لیے مکمل اہتمام کرتے ہوئے ایسی تمام باتوں سے منع کیا ہے جو فسادیِ دل کا باعث ہوں۔ دل کی اصلاح کا بہترین ذریعہ توحید الہٰی اور دل کی موت کا پروانہ خدا تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [التوبة: 28]. بے شک مشرکین نجس ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا عبرتناک اور رسوا کر دینے والے عذاب کا وعدہ ہے۔ فرمایا: أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [المائدة: 41]. اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان لوگوں کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں۔ ان کے لیے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہےاور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔

باوجود اتنی تاکید کے ہمار ایہ حال ہے کہ جب سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون اپنے ایک وفد کے ساتھ ہمسایہ ملک ہندوستان کے دورے پر آیا، تو اس نے بال ٹھاکرے سے پوچھا کہ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی کہاں ہے؟بال ٹھاکرے نے تفصیلی جواب دینے کے بجائے صرف ایک جملے جہاں جہاں گندگی دکھائی دے سمجھ لیں کہ یہ مسلم علاقے ہیں۔ ر اکتفا کیاتھا۔اسی طرح ابھی کچھ دن پہلے رمضان کی آمد سے قبل ایک غیر مسلم لیڈر نے یہ کہہ کر ہنگامہ مچا دیا تھا کہ رمضان گندگی اور کوڑا کرکٹ پھیلانے کا مہینہ ہے۔ کسی زمانے میں مسلم آبادیوں کی پہچان مساجد کے مینار ہوا کرتے تھے، لیکن آج گندگیوں کے انبار ہماری شناخت بن گئے ہیں۔ ہم ان مثالوں کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر سچائی یہی ہے۔اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونے ہی کی وجہ سے اسلام بدنام ہو رہا ہے اور جیسے جیسے معاشرے میں برائیاں پھیلتی جارہی ہیں ویسے ویسے ہم لوگو ںپر طنز کرنے کے اسباب پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ جارج برنارڈ شاہ اسلام سے بہت نفرت کرتا تھا لیکن جب عبدالعلیم میرٹھی صدیقی سے اس کا بحث و مباحثہ ہوا تو وہ اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیمات کا قائل ہوگیا لیکن اس نے آخر میں ایک جملہ کہا جو ہم سب کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے: I Love Islam But I Hate (Current) Muslims Becouse They Do Not Follow Islam Properl میں اسلام سے محبت کرتا ہوں لیکن مجھے (موجودہ)مسلمانوں سے نفرت ہے ، اس لیے کہ وہ اسلام پر کما حقہ عمل پیرا نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسے طنزیہ جملے سننے کے اسباب ہم نے ہی تو انہیں یا ان جیسے دوسرے لوگوں کو مہیا کرایا ہے ۔جو مذہب انسان کے ظاہر و باطن کو سنوارنے آیا ہو ، اسی کے پیروکاروں کی شناخت اس کے متضاد چیزوں سے ہو رہی ہو تو یہ نہایت ہی شرم کی بات ہوگی۔ مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ان کی شناخت صفائی کے علمبردار ہونے کے بجائے نجاست اور گندگی کے ڈھیروں میں رہنے والوں سے ہو رہی ہے۔ اس کی مثال مکانات، محلوں، راستوں، گلیوں، سڑکوں اور مسلم ممالک کے ماحول میں دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ مسلمان ایٹمی طاقت ہے، ہمیں اپنے ملک کو سنوارنے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا آج باقاعدہ آغاز کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال بعد پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا، اس مہم کی کامیابی کے لیے شہریوں کی شرکت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ حکومت کی خواہش لازمی ہے۔ اب جب کہ موجودہ حکومت ملک کو صاف ستھرا کرنے اور آلوگی کو ختم کرکے سرسبز و شاداب کرنے کی بات کررہی تھی پاکستان کا شہری ہونے کےناطے یہ ہم سب کی شہری ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ ہم اسے کامیاب بنائیں ، چاہے ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو کہ یہ صحت و صفائی اور سرسبز و شاداب ملک ہماری ہی آنے والی نسلوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان کا شہری ہونے ہم کس طرح اپنے اندازِ زندگی میں معمولی تبدیلی لا کر اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔

۱۔ درخت ہماری حیات کا ضامن ہیں ، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اگر ایک خاندان ایک پودے کو پروان چڑھائے تو ملک میں تین کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ خاندان ہیں، یعنی اتنے ہی درخت یقینی پروان چڑھیں گے۔ آپ اپنی شادی یا بچے کی پیدائش پر بھی ایک درخت لگا کر اس کو بطور یاد گار پروان چڑھا سکتے ہیں۔

۲۔  ہر طرح کا کوڑا ، کچرا نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں گھر کے کچن سے لے کر گھر کے باہر رکھے ڈرموں تک اور اس سے آگے ڈمپنگ یارڈ تک خشک کوڑا اور گیلا کچرا دونوں الگ رکھے جاتے ہیں۔ یہی پریکٹس اپنے گھر میں شروع کردیں۔ خشک کچرا جیسے اخبار، لفافے، ردی، ڈبے اور ایسی ہی دیگر اشیا آپ فروخت کرکے انہیں ری سائکلنگ کے نظام کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ صرف گھر میں ایک اضافی کوڑے دان رکھنے سے آپ ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

۳۔ بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارا گھر صاف ہے تو ہم مہذب ہیں ۔۔ جی نہیں صاحب! آپ کی گلی یا کمپاؤنڈ بھی آپ ہی کے گھر کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔آپ کا گھر شیشے کی طرح چمچمائے لیکن گلی میں کچرے کے ڈھیر ہوں تو آپ کے رشتے دار اور ملنے والے یہی کہیں گے کہ گندے علاقے میں رہتے ہیں۔ گلی ، محلے یا کمپاؤنڈ کی سطح پر ایک کمیٹی بنائیں جو اس بات کو یقینی بنائے کہ صفائی کا عملہ اپنا کام درست طور پر انجام دے ، اور اہل ِ محلہ بھی صفائی کے بعد اضافی کوڑا نہ پھینکیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہر گلی میں دو کوڑے دان( خشک اور گیلا ) نصب کیے جاسکتے ہیں جس سے حکومت کو اپنے کام میں آسانی ہوگی۔ سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے میں رنگ وروغن کرانا بھی کچھ مہنگا نہیں پڑتا اور گلی محلے میں اگر خوشنما درخت ہوں، گھروں کے آگے مختصر کیاریاں ہوں تو یہ سب آپ ہی کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے اچھا ہے۔

۴۔ اگر آپ اوپر والے کام اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں تویقیناً آپ ایک صاف ستھرے ماحول میں رہائش پذیر ہوں گے ۔ ایسے میں اگر کوئی شخص ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرے ، بلا سبب کوڑا پھینکے تو اسے نظر انداز مت کریں ، آگے بڑھیں اور اسے منع کیجئے کہ اچھے بھلے صاف ستھرے محلے میں خرابی کا سبب نہ بنیں۔ اگر وہ شخص نہ مانے تو محلہ کمیٹی کے ذریعے اس پر معاشرتی دباؤ بڑھائیں۔

۵۔ اس معاملے اساتذہ ادا کرسکتے ہیں، ہمیں اندازہ ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کو بے پناہ مشکلات درپیش ہیں، لیکن اس کے باوجود نئی نسل کی تعلیم و تربیت بھی ان ہی کہ ذمے ہے ج۔ کیسے بھی حالات ہوں نئی نسل کی تربیت کرنا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ ہم ایسے بھی اساتذہ کا تذکرہ سنتے رہے ہیں کہ جو میدانِ جنگ میں بھی اپنے فرائض سے پیچھے نہیں ہٹے۔ کم عمر ی میں ہی بچوں کو درختوں سے پیار کرنا سکھائیں اور بتائیں کہ یہ ہمارے سانس لینے کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ انہیں بتائیں صفائی انہی کی صحت کے لیے لازمی ہے اس لیے اپنا گھر ، اسکول اور محلہ صاف رکھا جائے۔ اگر کوئی بچہ اسکول میں کچرا پھینکتا ہے تو اسے پیار سےسکھائیں کہ ایسا کرنا بہت غلط بات ہے ۔ اساتذہ کی یہ تربیت ہی کل کو ایک ذہنی طور پر منظم قوم پیدا کرسکے گی۔

۶۔ عمولی تراکیب سے ہم پانی کی بڑی تعداد بچا سکتے ہیں۔ ایک اوسط فلش ٹینک میں 13 لیٹر پانی آتا ہے ۔ یعنی دن میں اگر پانچ مرتبہ فلش کیا جائے تو 65 لیٹر صاف پانی اسی کام میں ضائع ہوجاتا ہے۔ آپ پلمبر سے معمولی تبدیلی کرا کر اپنے واش بیسن کے استعمال شدہ پانی کو فلش ٹینک میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نیا گھر تعمیر کر رہے ہیں تو ایک فلٹر پلانٹ لگا کر استعمال شدہ پانی کو گارڈننگ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بہت دیر تک گاڑی دھوتے رہتے ہیں ۔ اگر آپ کو گاڑی دھونے کا اتنا ہی شوق ہے تو کار واش کے لیے ایک کمپریسرخرید لیں جو دباؤ کے ذریعے پانی کو پریشر سے پھینکے گا۔ اس سے آپ کی گاڑی کم پانی میں زیادہ اچھے سے صاف ہوجائے گی۔ یہ سب کہنے کو انتہائی معمولی اقدامات ہیں، لیکن ان پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے محلے، علاقے، شہر اور پورے ملک میں ایک سرسبز و شاداب اور صاف ستھرے انقلاب کا آغاز کرسکتے ہیں، یاد رکھیں یہ ملک ہمارا ہے اور اسے ہم نے ہی سجانا ، سنوارنا اور آگے بڑھانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 755701
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش