3
1
Tuesday 6 Nov 2018 00:30

ماسکو، منامہ اور پاکستان

ماسکو، منامہ اور پاکستان
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مولانا سمیع الحق کو فادر آف طالبان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جب سے طالبان کی بنیادیں رکھی گئیں، مولانا سمیع الحق کو بابائے طالبان کی حیثیت حاصل رہی اور یہ فقط الفاظ کا کھیل نہیں تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملا عمر سمیت طالبان کی اکثریت مولانا سمیع الحق کے مدرسے کی ہی فارغ التحصیل ہے۔ طالبان کے ساتھ حکومت پاکستان کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے، لیکن مولانا سمیع الحق نے کبھی بھی طالبان سے جدائی یا لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے تادمِ آخر طالبان کے ساتھ اپنے عقیدتی و معنوی رشتے کو نبھایا، یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جس سانپ کو مولانا دودھ پلا کر جوان کرتے رہے، اسی نے بالآخر مولانا کو ڈس لیا ہے۔ بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ طالبان نے جس تحریک کا آغاز گولی کے ساتھ کیا تھا، اس کا ایک باب مولانا کے خون کے ساتھ بند ہوگیا ہے اور اس کے نئے باب کا آغاز اسی ہفتے میں ماسکو سے ہونے جا رہا ہے۔

 ابھی مولانا کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ 9 نومبر کو روس میں افغانستان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ روسی ترجمان کے مطابق طالبان کے سیاسی دفتر دوحہ کے وفد کی اس طرح کے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں شرکت پہلی مرتبہ ہوگی۔ ایسی کانفرنس سے کچھ روز پہلے مولانا کا مشکوک انداز میں قتل ہو جانا مزید کئی شکوک کو جنم دیتا ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ اس اعلیٰ سطحی کانفرنس میں امریکہ، پاکستان، بھارت، ایران اور چین کے ساتھ ساتھ سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہنے والی وسطی ایشیاء کی پانچ ریاستوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت جہاں طالبان کو قانونی حیثیت دینے کا کام ہو رہا ہے، وہیں پر افغانستان میں بھارت کے مضبوط سفارتی وجود کو بھی کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گذشتہ چند سالوں سے پاک افغان مشترکہ سرحد کو بھارتی ایجنٹ اور تربیت یافتہ دہشت گرد مسلسل استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کو اپنے تحفظ اور بقا کے لئے افغانستان و طالبان مذاکرات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارت کے سفارتی کردار پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی۔

دوسری طرف ان دنوں اسرائیل کو بھی قانونی طور پر تسلیم کئے جانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ گذشتہ دنوں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اومان کا دورہ اور سلطان قابوس سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ منامہ میں عرب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اومان کے وزیر خارجہ یوسف بن علاوی نے کہا کہ اسرائیل خطے میں موجود اور مشرق وسطیٰ کی ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو بھی دوسری ریاستوں کی طرح سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس جھگڑے کو ختم کرنا ہے۔ اومان مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کی کوششوں کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد خالد بن احمد الخلیفہ جو کہ بحرین کے وزیر خارجہ ہیں، انہوں نے بھی اومان کے وزیر خارجہ کی تائید کی اور ایسا ہی سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی کیا۔ گذشتہ دنوں میری ریغیف، اسرائیلی وزیر ثقافت و کھیل نے یو اے ای کا خصوصی دورہ بھی کیا، جسے مقامی میڈیا نے ’’حمامۃ سلام‘‘ (امن کی کبوتری یا فاختہ) قرار دیا۔ گویا ساری ہی عرب ریاستیں اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم کرچکی ہیں۔

اس وقت عرب ممالک جس طرح امریکہ و اسرائیل کے آگے بچھے جا رہے ہیں، اس کا خمیازہ مسلمانوں کی آئندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ چونکہ زمینی حقائق کے مطابق اس وقت بھی 30 مارچ 2018ء سے اب تک غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری ہے اور تحریک حق واپسی کو کچلنے کے لئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ یا عرب ممالک کا گویا فلسطین سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ امر انتہائی توجہ کا طالب ہے کہ ماسکو میں ایک کانفرنس میں طالبان کے وجود کو قانونی حیثیت دینے کے لئے کوششیں جاری ہیں، جو کہ پہلے سے ہی پاکستانیوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد مزید بے لگام ہوچکے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ  بھارت ان پر دستِ شفقت رکھے ہوئے ہے، جبکہ دوسری کانفرنس کے ذریعے اسرائیل کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی ہے، جو کہ صرف عرب ریاستوں کے لئے ہی خطرناک نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے لئے بھی شدید تھریٹ ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی  کوشش کا دائرہ کار اس وقت صرف عرب ممالک تک محدود نہیں بلکہ اس کی باز گشت پاکستان کے اندر بھی سنائی دے رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان اظہار کرے یا نہ کرے، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا مستقبل اور تحفظ ان دونوں کانفرنسوں کے جواب میں ایک مناسب اور ٹھوس  ردعمل میں مضمر ہے۔
خبر کا کوڈ : 759664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان میں بھی بہت کام ہو رہا ہے اور مذکورہ کانفرنسوں سے پہلے مولانا سمیع الحق کا قتل ہو جانا بھی بہت اہم ہے، چونکہ مولانا سے ہمارے اختلافات اپنی جگہ لیکن مولانا کے ذریعے طالبان کی ایک بڑے کھیپ کو پاکستان کنٹرول کرتا تھا، جس سے اب پاکستان محروم ہوگیا ہے۔ اب بھارتی کنٹرولڈ طالبان و اسرائیل کا مشترکہ ٹارگٹ پاکستان ہی ہے۔ لہذا ہمیں اس حوالے سے اپنے ملک میں بیداری لانے کی کوشش کو جاری رکھنا چاہیے۔
Germany
ماسکو کانفرنس کا مسئلہ بروقت اٹھایا گیا ہے۔ البتہ اس حوالے سے میڈیا میں بہت زیادہ کام ہونا چاہیے اور اگلے ایک دو روز میں حکومت کو اس حوالے سے مزید مشورے دیئے جانے چاہیے۔
France
جناب عالی۔
ماسکو اس وقت شام کا اتحادی ہے اور شام ایران کا اتحادی ہے۔ اگر طالبان افغانستان پر حملہ آور امریکی حکومت کی چھتری تلے مذاکرات کو مسترد کرکے روس کی میزبانی میں مفاہمت پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ افغانستان کے داخلی امن کے لئے ایک اچھا شگون سمجھا جانا چاہئے۔ لیکن آپ نے جو معجون ترتیب دیا ہے، اس میں ایک اور مرتبہ طالبان کو بھارت کے کھاتے میں ڈال کر ضیائی باقیات کو خوش کیا ہے۔ افغانستان کے عوام آزاد ہیں کہ وہ جس ملک سے چاہیں اچھے تعلقات رکھیں۔ بدقسمتی سے اگر پاکستان کے امریکی پٹھو حکمرانوں نے ایوب خان کے دور سے افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین کو امریکا کو استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر سی آئی اے کے فساد کو جہاد کے عنوان سے کامیاب کروانے کے لئے کندھے بھی فراہم کئے، طالبان بنانے میں بھی سہولت کار بنے تو کیا افغان عوام پھر بھی آپکے حکمرانوں پر اعتماد کریں؟ کس خوشی میں؟؟ آپ لوگوں کا بس ایک ہی ہدف ہے بوٹ پالشی کئے جائو اور جب بھی آپ کو کوئی متوجہ کرے تو انجمن چاپلوسان حال مقیم قم اسلام ٹائمز کے دیگر محترم تجزیہ نگاروں پر اندھادھند حملے کرکے انکی مدلل تحریروں کو بھی متنازعہ بنانے پر تل جائیں۔
کسی کو کہتے ہیں چٹنی بنا دی ہے، کسی کو کہتے ہیں پرانی باتوں کی تکرار تو کسی کو کہتے ہیں کہ مختلف خبریں یکجا کر دیں۔ باقی یہ آپ جو چوں چوں کا مربہ پیش کر رہے ہیں ، اس کی واقعیت و حقیقت
بے نقاب کی جائے تو حق گوئی پر کسی کو مولوی خادم، دشمن کا جاسوس، جاہل، جو منہ میں آئے کہہ دو۔ نہ تو اس مقدس و نورانی سرزمین سے کوئی اخلاقیات سیکھی نہ ہی کوئی ایسا علم لیا کہ جس سے کم از کم ذاتی اصلاح ہی ہو جاتی۔ گئے تھے پڑھنے اور جا کر وہاں پڑگئے۔ مفت مشورہ ہے کہ دین کی تعلیم پر دھیان دیں اور جلد از جلد تحصیل علم کرکے وطن لوٹ کر اپنے فرائض انجام دیں۔ یہاں جو خلا ہے اسے پر کریں۔ ان تحریروں کے آپ سے بدرجہا بہتر لکھنے والے موجود ہیں۔
ہماری پیشکش