0
Wednesday 14 Nov 2018 12:37

مقبوضہ کشمیر، مسلمانوں کیخلاف ہندو انتہا پسندوں کی زہر افشانی

مقبوضہ کشمیر، مسلمانوں کیخلاف ہندو انتہا پسندوں کی زہر افشانی
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر کے جموں خطے میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے کُھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا ارتکاب ہو رہا ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف کشمیر کے فرقہ وارانہ بھائی چارے کو نقصان پہنچانا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی سیاسی روٹیاں سینک سکیں۔ رواں سال کے اوائل میں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بکروال لڑکی آصفہ بانو کے بہیمانہ قتل اور آبرو ریزی کے ملزمان کو بچانے کے لئے سرگرم ’’یکجٹ‘‘ نامی ایک ہندو انتہا پسند تنظیم کی جانب سے گذشتہ دنوں جموں میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں مسلم آبادی کے خلاف خوب زہر اگلا گیا اور کٹھوعہ واقعہ کے وقوع کا الزام بھی مسلمانوں پر ہی عائد کر دیا گیا۔ جموں جیسے پُرامن علاقے میں ایسے سیمینار کا انعقاد اور فرقہ پرست عناصر کا سرگرم ہونا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ایسی زہر افشانی سے ظاہر ہے کہ مقامی مسلم آبادی پر خوف مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مختلف تنظیموں کی جانب سے اس سیمینار پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

کشمیر کے کئی مین اسٹریم سیاستدانوں اور جموں و پیر پنچال کی مسلم تنظیموں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے شدت پسند عناصر پر لگام کَس لی جائے جو جموں کے امن کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں، وگرنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ امن و امان اور بھائی چارے کے لحاظ سے جموں ایک حساس خطہ ہے، جو عمومی اعتبار سے پُرامن رہا ہے لیکن یہاں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے سلگائی جانے والی چنگاریاں بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں، جس کی وادی کشمیر متحمل نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک ان عناصر کے خدشات کا تعلق ہے تو جموں میں آبادیاتی تناسب نہ تو تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکتا ہے بلکہ اقلیت اقلیت ہی رہے گی اور اکثریت اکثریت۔ اس لئے ایسے بیانات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو سماج کو آپس میں تقسیم کرنے کا باعث بنیں اور جن سے ہندو مسلم بھائی چارے کو نقصان پہنچے۔

کشمیر کے دیگر خطوں سے آکر جموں بسنے والے یا تو حالات کے مارے ہوئے ہیں یا پھر وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی خاطر جموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دیگر علاقوں سے آکر جموں بسنے والی یہ آبادی صرف مسلمانوں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے بھی بڑی تعداد میں جموں منتقلی کی ہے، لہٰذا صرف مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جموں میں بہت بڑی تعداد میں غیر ریاستی شہری آباد ہیں، جن میں سے بڑی تعداد کے پاس مستقل رہائشی باشندگی سرٹیفکیٹ ہونے کی اطلاعات بھی ہیں، تاہم جموں کے مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں نے اس مسئلہ پر آج تک کبھی زبان نہیں کھولی اور نہ ہی اُنہیں ہمسایہ ریاستوں سے یہاں منتقل ہوکر مستقل سکونتی اسناد حاصل کرنے والوں کی موجودگی سے جموں کی شناخت ختم ہونے کا خوف لاحق ہے۔

ایک بظاہر جمہوری ملک میں خالص مذہبی بنیاد پر کسی ایک طبقہ کو نشانہ بنانا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ آئینی ضمانتوں کو پامال کرنے کی صریحی کوشش ہے، لہٰذا ایسی سرگرمیوں کا دائرہ کار مزید پھیلنے سے قبل ہی ان پر روک لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ فرقہ پرست عناصر کو ماضی کی طرح اس بار بھی اپنے عزائم کی تکمیل میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور ان کی تمام تر کوششیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ جموں خطے میں امن کو درہم برہم کرنے کے لئے ایسی کوششیں ہوتی آئی ہیں، مگر پہلی بار ایک پورے طبقہ کو کھلے عام نشانہ بنایا جا رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان ہندو انتہا پسندوں کی سرگرمیوں پر روک لگائی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ایسے سیمیناروں کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہیئے، چاہے وہ کسی بھی طبقہ کی طرف سے منعقد کئے جا رہے ہوں۔ ایسے شدت پسندوں کی کارروائیوں پر حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی کسی بھی اعتبار سے عوام کے مفاد میں نہیں ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 761095
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش