0
Wednesday 14 Nov 2018 23:56

امریکہ کی یمن میں جنگی جرائم کیلئے سبز جھنڈی

امریکہ کی یمن میں جنگی جرائم کیلئے سبز جھنڈی
تحریر: علی احمدی

امریکہ کے سیاسی اور فوجی حکام نے مل کر یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ پہلی نظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکام یمن میں سعودی اتحاد کے جنگی جرائم اور وحشیانہ قتل عام سے بیزار ہو چکے ہیں اور اسی لئے انہوں نے یمن میں خون خرابے کے خاتمے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن حال ہی میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کچھ ایسے بیانات دیئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جان بولٹن نے ان بیانات کے ذریعے وائٹ ہاوس میں حکمفرما افکار اور سوچ عیاں کر دی ہے۔ جان بولٹن نے کہا ہے کہ امریکہ سعودی سربراہی میں یمن کے خلاف جنگ میں مصروف عرب اتحاد کی حمایت جاری رکھے گا اور وائٹ ہاوس اسے امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ جان بولٹن کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے دو وزراء کی جانب سے یمن جنگ کے اختتام کا مطالبہ صرف میڈیا پر پروپیگنڈے کی حد تک ہی ہے جس کا مقصد امریکہ کے اصل اہداف اور فیصلوں پر پردہ ڈالنا ہے۔
 
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ایک طرف یمن جنگ کے خاتمے پر زور دیا ہے جبکہ دوسری طرف سعودی اتحاد کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ہر قیمت پر جنگ کو اپنے حق میں ختم کرنے کی کوشش کریں لیکن ساتھ ہی انہیں خبردار بھی کیا ہے کہ اس مقصد کیلئے ان کے پاس انتہائی محدود وقت ہے۔ عین اسی وقت یمن سے متعلق امن مذاکرات بھی ملتوی کر دیئے جاتے ہیں تاکہ سعودی اتحاد کو یمن میں فوجی کامیابی کیلئے آخری موقع بھی فراہم کر دیا جائے۔ امریکی حکام کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد سعودی اتحاد میں شامل کئی ممالک پر مشتمل زمینی فوج نے حدیدہ بندرگاہ پر قبضہ کرنے کیلئے بھرپور حملہ شروع کر رکھا ہے۔ سعودی اتحاد کے حملوں میں شدت درحقیقت امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر سعودی اتحاد کو یمن میں جنگی جرائم کی کھلی چھٹی دے کر اس ذلت آمیز شکست کا بھی انتقام لینا چاہتے ہیں جو چند ماہ پہلے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجیوں کو اس وقت برداشت کرنا پڑی تھی جب انہوں نے سعودی اتحاد سے مل کر پہلی بار حدیدہ بندرگاہ پر قبضے کیلئے بھرپور حملہ انجام دیا تھا۔
 
لیکن اب تک سعودی اتحاد کی تمام تر کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں اور گذشتہ چند دنوں میں 1000 سے زائد سعودی اور اتحاد میں شامل دیگر فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ انصاراللہ اور عوامی رضاکار فورسز حدیدہ بندرگاہ میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور انہوں نے آخری دم تک دشمن کا مقابلہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یمن کے خلاف جارح قوتوں نے ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ دباو یمنی عوام پر آ رہا ہے۔ ان کی اس پالیسی کا مقصد عوام کو انصاراللہ اور عوامی رضاکار فورسز کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادیوں کی یہی احمقانہ سوچ ان کی ناکامی کا باعث بنی ہے۔ وہ یمنی عوام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مشکلات سے تنگ آ کر انقلابی فورسز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یمنی عوام اپنے وطن کی خودمختاری اور دفاع کی خاطر جان قربان کرنے کیلئے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ امریکی اور سعودی پالیسیوں کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا ہے اور یمن میں جگہ جگہ انصاراللہ اور انقلابی فورسز کے حق میں بڑے پیمانے پر حمایت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ملین مارچ منعقد ہو رہے ہیں۔
 
اگر ہم امریکہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ماضی کی جنگوں میں بھی امریکہ نے امن مذاکرات کے قریب وسیع قتل عام اور جنگی جرائم کے ارتکاب کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یمن کے انقلابی رہنما موجودہ چار سالہ جنگ کو مظلوم یمنی عوام کے خلاف امریکی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد امریکہ کی مدد اور حمایت کے بغیر بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ درحقیقت امریکہ ہے جو ان سے نبرد آزما ہے۔ اب جب یمن میں جنگ بندی کی باتیں ہو رہی ہیں تو سعودی اتحاد کی کوشش ہے کہ مذاکرات میں برتری کی خاطر جہاں تک ہو سکے زمینی حقائق اپنے حق میں تبدیل کئے جائیں۔ سعودی اتحاد امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کے ذریعے یمنی عوام کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یمنی عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں لیکن جارح قوتوں کے سامنے سر جھکانے پر تیار نہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 761270
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش