0
Thursday 22 Nov 2018 16:30

اہل فلسطین کو فتح مبارک

اہل فلسطین کو فتح مبارک
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

یوں تو تحریک آزادئ فلسطین کو ستر سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس تاریخ میں فلسطینی قوم کو یہ افتخار حاصل ہے کہ ہر موقع پر شجاع، دلیر اور پائیدار ثابت ہوئی ہے۔ پابرہنہ فلسطینیوں نے ایک ایسی خونخوار جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ مقابلہ ہے، جس کو دنیا ناقابل تسخیر بھی سمجھتی ہے، امریکی حکومت اس وحشی اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر بھی دیتی ہے، تاکہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہے اور فلسطین کی سرزمین پر پورے کا پورا قبضہ ان غاصب صہیونیوں کا ہو جائے، جن کو پہلی جنگ عظیم کے بعد سے دنیا کے مختلف گوش و کنار سے نکال کر فلسطین کی زمین پر لانے کا کام شروع کیا گیا تھا اور جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر اپنے غاصبانہ تسلط کا اعلان کیا۔ جعلی ریاست اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ تسلط سے لے کر مسلسل فلسطینیوں کو صہیونیوں کے مظالم کا سامنا ہے اور ان مظالم کے سامنے فلسطینی مجاہد ملت نے ہمیشہ سے سر اٹھا کر مقابلہ کرنے کو ہی ترجیح دی ہے، جس کے نتیجہ میں آج تک صہیونی جرثومہ اسرائیل اپنے بہت سارے ناپاک عزائم میں ناکام رہا ہے۔

یوں تو اسرائیل نے خطے میں بہت سے عرب ممالک کے ساتھ جنگیں کی ہیں اور ان کے علاقوں کو ہتھیایا ہے، لیکن غزہ فلسطین کا ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں تقریباً بیس ملین افراد بستے ہیں اور یہ سب کے سب فلسطینی عرب ہیں، ان میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر اقلیتی مذاہب بھی شامل ہیں، البتہ ان سب کی شناخت فلسطین سے ہے۔ غزہ کی پٹی کو غاصب صہیونیوں نے 2008ء میں پہلی مرتبہ پچاس سے زائد روز تک جنگ کے نشانہ پر رکھا تھا اور اس جنگ کا ہدف یہ تھا کہ فلسطینیوں کی نمائندہ مزاحمتی جماعت حماس کے سیاسی گروہ کی عام انتخابات میں کامیابی کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ ان کی حکومت کمزور یا ختم ہو جائے، لیکن اسرائیل ان پچاس دنوں میں صرف معصوم انسانوں کا قتل عام کرنے اور غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنے کے علاوہ اپنے کسی اہداف کو حاصل نہ کر پایا، جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے نتیجہ میں اسرائیل کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور اس باعث اسرائیل پسپائی کا شکار ہو کر رسوا ہوا تھا۔

دوسری مرتبہ اسرائیل نے 2012ء میں فلسطینی عوام پر اس وقت بمباری شروع کی، جب ایک مڈ بھیڑ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے دو فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا، ان فوجیوں کی بازیابی کے لئے اسرائیل نے بائیس روز تک یکطرفہ جنگ مسلط کر دی اور فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس مرتبہ بھی نہ صرف اسرائیل کو ناکامی سے دوچار کیا بلکہ اسرائیل کو اس کے ہدف یعنی فوجیوں کی بازیابی میں بھی شکست دے دی، جس کے باعث اسرائیل پسپا ہوا اور اپنی فوجوں کو غزہ سے نکال لیا۔ تیسری مرتبہ اسی علاقہ میں اسرائیل نے ایک اور فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس کا دورانیہ 12 روز رہا اور یہ 2014ء میں ماہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ اس مرتبہ بھی اسرائیل نے مسلسل گولہ باری اور وحشت گری کرنے کے بعد اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکامی کا اعتراف کیا اور غزہ کے علاقے سے نکل کھڑا ہوا۔

گذشتہ بالا تینوں مسلط کردہ جنگوں میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا ہوا، جانی نقصان الگ، مالی نقصان الگ ہوا، اسی طرح مزید اس علاقہ کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا، بچوں کے وہ اسکول اور جامعات جو اقوام متحدہ کے اداروں کے زیر نگرانی کام کر رہے تھے، سب تباہ کر دیئے گئے، اسی طرح اسپتال جو ایمرجنسی حالات میں زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے، وہ بھی اسرائیلی گولہ باری اور مظالم کا نشانہ بننے سے محفوظ نہ رہ پائے۔ درج بالا تمام تر حالات و واقعات کے بعد بھی یہ فلسطین ملت کا افتخار ہے کہ انہوں نے غاصب صہیونیوں کے سامنے اپنا سرتسلیم نہیں کیا بلکہ ہر موقع پر صہیونیوں کو ان کی جارحیت اور ظلم کے جواب میں اپنی مجاہدانہ مزاحمت سے سامنا کیا اور سرخرو ہوئے۔ حالیہ دنوں بھی اسرائیل نے غزہ کے اسی علاقے کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا اور کئی ایک فلسطینیوں کو جہاں شہید کیا، ان میں مزاحمتی تحریک سے تعلق رکھنے والے حماس کے کمانڈر بھی شامل تھے، لیکن اس مرتبہ اسرائیل اس جنگ کو دو سے تین روز سے زیادہ جاری رکھنے میں کامیاب نہ ہو پایا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل جسے پوری دنیا ناقابل تسخیر سمجھتی ہے، جب جب اسلامی مزاحمت کی تحریکوں سے ٹکرایا ہے، اس کی قوت کا بھرم پاش پاش ہوتا رہا ہے، چاہے وہ لبنان کے ساتھ 33 روزہ جنگ ہو یا پھر غزہ پر مسلسل چار مرتبہ حملے ہوں، ہر مرتبہ ہی اسرائیل اپنی قوت کو ختم ہونے کا مشاہدہ کر رہا ہے اور یہ اسرائیل کے زوال کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت 51 روزہ جنگ کے بعد اگلی جنگ میں 22 روز تک رہ گئی تھی، جبکہ تیسری جنگ میں یہ دورانیہ صرف اور صرف 12 روز پر آگیا تھا اور اب کی مرتبہ تو اسرائیل کے حملوں اور مسلط کردہ جنگ کا دورانیہ دو سے تین روز رہا ہے، جو اس بات کا واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی پابرہنہ مزاحمت روز بروز طاقتور ہو رہی ہے اور اسرائیل اس مقابلہ میں کمزور اور ناتواں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ اس جنگ سے قبل مارچ 2018ء سے فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی فلسطین کی تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، جو تاحال جاری ہے اور ہر جمعہ کو اس عنوان سے بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، جس کے باعث اسرائیل سمیت اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ کی نیندیں بھی حرام ہیں۔ یقیناً اقبال نے درست ہی کہا ہے:

مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں موجود عرب و غیر عرب ریاستیں اور ان کی حکومتیں فلسطینیوں کی پشت پناہی کریں، تاکہ فلسطین کے مظلوم عوام اپنی آزادی کے راستے کو جلد از جلد طے کریں اور فلسطین نہر سے بحر تک مکمل فلسطینیوں کا ہو، جہاں عرب فلسطینی بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر فلسطینی اقوام اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہوں۔ اے اہل فلسطین تمھیں غاصب اسرائیل پر فتح مبارک ہو۔
خبر کا کوڈ : 762688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش