0
Tuesday 4 Dec 2018 10:54

افغان جنگ اور امریکہ کی بدلتی حکمت عملی

افغان جنگ اور امریکہ کی بدلتی حکمت عملی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

زلمے خلیل زاد اسلام آباد پہنچے ہیں، انکا گذشتہ 2 ماہ کے دوران پاکستان کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ زلمے خلیل زاد کا دورہ گذشتہ ماہ طے تھا، جو ناگزیر وجوہات پر ملتوی کیا گیا تھا۔ امریکی نمائندہ خصوصی پاکستان سمیت 8 ممالک کا دورہ کر رہے ہیں، جس کے دوران وہ افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے۔ امریکی صدر نے عمران خان کو خط بھی لکھا ہے۔ امریکی صدر کی پاکستان کے خلاف حالیہ ہزرہ سرائی کے ڈانڈے دراصل اس تلخ حقیقت سے ملتے ہیں، جس کے مطابق افغانستان میں سترہ سال کی مسلسل فوج کشی اور جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے بے تحاشا استعمال کے باوجود آج بھی افغانستان کے ساٹھ سے ستر فی صد رقبے پر طالبان کا قبضہ ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے، جس کا اعتراف امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ کے اس بیان سے سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان ہارے نہیں، 17 برس کی جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور ہمیں ان کی مضبوط پوزیشن کو تسلیم کر لینا چاہیئے، طالبان بات چیت کے لئے تیار ہو جائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ اسی طرح امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی پالیسی کے تحت کی جانیوالی مسلسل بمباری میں کئی بے گناہ شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔

امریکہ اور افغانستان کی حکومت طالبان کو کیسے مناتی ہے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں خاصی تیزی آئی ہے، قطر میں قائم طالبان کا دفتر بھی فعال ہے جبکہ امریکہ اور افغان حکومت کے نمائندے خاصے فعال ہے۔ ایک طرف امریکہ طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے، دوسری طرف ڈرون اور دوسرے ہوائی حملوں کے ذریعے انھیں مسلسل مارا جا رہا ہے، جیسے کہ ملا منان کو ڈرون حملے کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا، ایسی صورت میں طالبان بھلا کس طرح امریکہ کے جھانسے میں آکر اس کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوسکتے ہیں۔ امریکہ گذشتہ 17 سال سے افغانستان میں برسرپیکار ہے لیکن ابھی تک اس کو نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ پاک امریکہ تعلقات میں افغانستان طویل عرصے سے اہمیت کا حامل رہا ہے، اس کی وجہ سے کبھی دو طرفہ قربتیں بڑھیں تو کبھی دوریاں اور تناؤ بھی پیدا ہوا۔ امریکہ خفیہ طور پر طالبان نمائندوں سے رابطے میں ہے، اس حوالے سے افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمایندہ زلمے خلیل زاد افغانستان پاکستان اور دیگر متعلقہ ممالک کے طویل دورے پر ہیں۔ ان کا دورہ طالبان قیادت کو منانے کی کوشش کا حصہ ہے، کیونکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے افغان عمل امن میں پاکستان کی معاونت مانگنے کے بعد ایک بار پھر پاک امریکہ تعلقات بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز جاری ہیں، 80ء کی دہائی میں شروع ہونے والی افغان جنگ نے روس کے خلاف پاک امریکہ قربتیں بڑھائیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنا اور امریکہ کو زمینی اور فضائی راستے بھی دیئے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان خود بھی میدان جنگ بن گیا۔ 70 ہزار سے زائد شہریوں اور قانون فانذ کرنے و الے اداروں کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، 100 ارب ڈالرز سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان نے خالد شیخ سمیت اہم القاعدہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا، مگر مئی 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دو طرفہ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اسی سال نومبر میں افغان سرحد کے قریب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں 26 پاکستانی فوجیوں کی شہادت سے پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان نے افغانستان کے لئے نیٹو سپلائی بند کر دی۔ جولائی 2012ء میں امریکہ نے سلالہ واقعہ پر پاکستان سے معذرت کر لی۔
 
افغانستان کے مسئلے کا بات چیت کے ذریعے حل پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے اور اس کے لئے کوششیں بھی کی جاتی رہیں، جو مختلف وجوہات کی بنا پر آگے نہ بڑھ سکیں۔ جولائی 2015ء میں افغان طالبان کو مری میں مذاکرات کی میز پر لایا گیا تو افغان حکومت کی جانب سے طالبان امیر ملا عمر کی ہلاکت کی خبر سامنے آگئی۔ ایک بار پھر مذاکرات کی کوششیں شروع ہوئیں تو 21 مئی 2016ء کو بلوچستان میں طالبان امیر ملا منصور کی ہلاکت کا واقعہ پیش آگیا۔ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو 17 سال ہوچکے، ہزاروں فوجیوں کی ہلاکتوں اور اربوں ڈالرز کے اخراجات کے باوجود اس وقت بھی امریکی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق ملک کا 40 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان سے متعلق سخت پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ گذشتہ ماہ بھی امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات داغے جس کا پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔ ڈو مور کے مطالبات اور نومور کی دھمکیوں کے بعد اب شاید ٹرمپ انتظامیہ کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔
 
افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے امریکہ کی جانب سے پاکستان سے تعاون کی درخواست، پاک امریکہ تعلقات میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور قربانیوں کو تسلیم کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک صدر ٹرمپ کے ٹوئٹس اور بیانات میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ افغانستان کے داخلی مسائل اور تصفیہ طلب معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے پاکستان نے ہمیشہ نیک نیتی کے ساتھ مدد اور حمایت کی ہے۔ چنانچہ حکومت پاکستان کی جانب سے امریکی صدر کے اس خط کا بھی خیر مقدم کیا گیا ہے، جس میں زور دیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کو شراکت داری کی تجدید کرنی اور نئے مواقع تلاش کرنے چاہیں۔ افغان مسائل کے حل کے لئے یقیناً پاکستان کی جانب سے دنیا کو حمایت اور تعاون حاصل رہے گا، تاہم مسائل کے بنیادی اسباب کا ادراک کئے بغیر کوئی بھی حل تلاش نہیں کیا جا سکتا اور افغانستان کے مسئلے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ امریکہ کی سربراہی میں عالمی مداخلت پر اُس ملک کے عوام کو شدید اعتراضات ہیں۔ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان مقدور بھر کوشش ضرور کرے گا، لیکن مذاکرات کی کامیابی اور افغانستان کے بنیادی مسئلے کے پائیدار حل کے لئے امریکہ کو اپنی حکمت عملی پر جامع نظرثانی کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ کے طرزعمل اور امریکہ کی مفاد پرستی پہ مبنی منافقت سے بھرپور تاریخ کی روشنی میں ایسی امید مشکل ہے، پاکستان یہ حقیقت پیش نظر رکھے گا۔
خبر کا کوڈ : 764743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش