0
Tuesday 25 Dec 2018 19:15

اخوت کا بیاں ہوجا

اخوت کا بیاں ہوجا
تحریر: الطاف جمیل شاہ ندوی
(مقبوضہ کشمیر)

دورِ حاضر کا المیہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہم میں سے بعض کلمہ خوان غرور و تکبر، احساسِ برتری، تنگ نظری، بدگوئی کے سبب مسلم معاشرے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، دوسری طرف اسلام کی روٹیاں توڑنے والے بھی اسلامی مزاج و کردار سے دور بہت دور ہیں، اگرچہ زبانی کلامی اسلام کی بقاء و فروغ کی باتیں کرتے ہیں، مگر غور و فکر کے ساتھ ان کے کاموں پر نگاہ ڈالئے تو محسوس ہوگا کہ یہ اپنے دین و ایمان کی تجہیز و تکفین کرتے رہتے ہیں۔ اسلام سکھاتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو دوسروں کے محاسن پر نظر رکھے، قدر شناس ہو، خود کو اوروں سے کم تر اور دوسروں کو اپنے سے برتر سمجھے ،مگر کیا کیا جائے یہاں حال یہ ہے کہ حضرات اپنے وجود سے باہر ہر کس و ناکس کو کم تر جان کر اس شعر کے مصداق بنتے ہیں۔
ہر کوئی کہتا ہے میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں

حدیث شریف میں آیا ہے کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی کا اخلاق و کردار جب تک دوسرے بھائی کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگا، وہ بھائی کہلانے کا کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق کا درس دیا ہے، تاکہ دوسرا کمزور بھائی بھی زندگی امن و سکون اور عزت و وقار کے ساتھ گزار سکے۔ آپسی بھائی چارہ، اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ہم دوسروں کا دل جیت سکتے ہیں، مگر آج ہم خود کو اوروں سے بالاتر سمجھنے کے سبب بدحال بنے ہوئے ہیں، ہماری اخلاقی طاقت بکھر چکی ہے، ہمارا تشخص تحلیل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں دبانے میں لگا ہے، یہاں تک کہ ہمارے اپنے بھی غیروں کے ساتھ مل کر ہمارے لئے ہی خنجر بنے ہیں، ہماری کی شہ رگ کاٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم اغیار کا کیا شکوہ کریں، ہم تو اپنوں کی کرم فرمائیوں سے ہی خوف زدہ ہیں اور وہ وحشت و درندگی کے وہ کارنامے انجام دے رہے ہیں کہ جن سے اسلامی اخوت کا چمن اجڑ رہا ہے۔

اس لئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بحیثیت ملت اسلامیہ ہم کب کے مرگئے ہیں، اب صرف ہماری اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں ہیں، انانیت کے بت ہیں، اتحاد و اتفاق کے درس بے معنی باتیں ہیں، ہماری اسلامی قدریں اتنی ڈھیلی پڑ چکی ہیں کہ مساجد، نمازیں، حج و عمرہ کی ادائیگیوں کے باوجود بھی ہماری صفیں نہیں ملتیں، ہمارے لئے جو عبادات اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کا درس تھیں، وہ بھی اب قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ اسلام نے تو درس دیا تھا کہ اگر افریقہ کے صحرا میں کسی مسلمان کے تلوے میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک ایشیاء میں مسلمان اپنے دلوں میں محسوس کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا آج مسلمانوں کے لئے مقتل بنی ہوئی ہے، خون مسلم کی ارزانی پر آسماں بھی ماتم کناں ہے۔ عراق لٹ گیا، لیبیا تباہ ہوگیا، شام کی سرزمین مسلم لاشوں سے بوجھل ہے، کہاں کہاں ندائے مظلوم مین بلند نہیں ہوتیں۔؟

اپنا وطن کشمیر کہاں کہاں لہو لہاں نہیں۔؟ کہاں بیٹیوں کی چیخیں بلند نہیں ہوتیں۔؟ یتیم اور بیوائیں کہاں نہیں سسکتیں۔؟ بھوک پیاس کی شدت سے کتنے بچے بوڑھے پیر و جوان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرتے۔؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیئے، اپنے ضمیر پر زور ڈالئے، اپنی غیرت سے سوال کیجیئے، اپنے ایمان سے سرگوشی کیجیئے، مسلمانی کا واسطہ دے کر اپنے آپ سے پوچھیئے، قرآن کریم سنن نبوی (ص) کو پڑھ کر اور اصحاب النبی کی داستان عزیمت پڑھ کر سوچیئے کہ اپنے بھائیوں کی لاچاری و بے کسی کو دیکھ کر یا سن کر کتنی بار آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائیں۔؟ کتنی بار آپ کی غیرت ایمانی نے آپ کو پکارا کہ اپنی عیش گاہوں سے ذرا سا نکل کر اپنی مظلوم ملت کی مدد کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔؟ ایک سال کی مدت میں آپ نے کتنا وقت اپنی ملت اسلامیہ کے سسکتے بلکتے لوگوں کی خبرگیری کے لئے نکالا۔؟

ہفتوں مہینوں کا حساب کیجیئے۔؟ گزرے لمحات کا گوشوارہ دیکھیئے کہاں آپ نے کسی کے ساتھ محض اللہ کے لئے ہمدردی کا سلوک کیا۔؟ ان سوالات کا جواب پانے والے زیادہ تر ہم مسلمان ایسے ہوں گے، جن کی پوری زندگی میں ماہ و سال چھوڑیئے چند گھنٹے بھی ایسے نہ ہوں گے، جو ہم نے اپنے دینی بھائیوں کی خبر گیری میں صرف کئے ہوں۔ کیا یہ شرم و عار کی بات نہیں ہے۔؟ تو کیا ہم بھول گئے ہیں اپنے نبی اکرم (ص) کے فرمان کو کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔؟ کیا بھائی ایسے ہوتے ہیں۔؟ کیا بھائی بھائی کی خبرگیری، اس کی مدد، اس کے لئے کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں۔؟ ہرگز بھی نہیں، تو سوچیئے ہم کون ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ بھائی چارے کے حوالے سے ہمارا ماضی جتنا تابناک ہے، اُسی قدر ہمارا حال بے رُخی اور بے فکری کا ہے۔ ایسے میں ہمارا ملّی مستقبل خدا نخواستہ کتنا تاریک ہوگا، اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آج جس خود غرضی اور بے فکری کے ساتھ ہماری زندگی گزر رہی ہے، کیا قرآن و حدیث ہم سے ایسی بے نیاز زندگی گذارنے کا کہیں مطالبہ کرتا ہے۔؟ کیا ہم اس طرح کی زندگی گزار کر اپنے رب کے یہاں سرخ رُو ہوں گے۔؟

آج ہماری زندگی صرف اپنے مفادات اور منافع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارا مسلمان پڑوسی بھوکوں مر رہا ہو، ہمارے محلے میں یتیم بچے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں، بیوائیں سسک سسک کر دُکھ بھرے دن کاٹ رہے ہیں، ہمارے محلے میں کوئی مریض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے موت کے انتظار میں ہے، مفلس و قلاش اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی سبیل نہیں نکال پاتا، غریب بیواؤں کی جوان بیٹیوں کی جوانیاں مرجھا رہی ہیں، قوم کے ہونہار نوجوان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنے خواب بکھرتے دیکھ رہے ہیں، کمزور مسلمانوں کے خون سے کھلے عام ہولیاں کھیلی جا رہی ہیں، ماؤں اور بہنوں کی عزت تار تار ہو رہی ہیں، ہمارے گرد و پیش ہماری بستیاں اجڑ رہی ہیں، لیکن پھر بھی ہم غفلت اور شانِ بے نیازی کے خول سے باہر نکل آنے کو تیار نہیں ہیں۔ افسوس اس سب کے باوصف ہم کو یہ دعوٰی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے کاش! ہم کو کچھ بھی پیغام اسلام کا پاس و لحاظ ہوتا۔ اے کاش! ہم نے رحماء بینہم کی تعلیم اپنے سینے سے لگا رکھی ہوتی تو  بات کچھ اور ہوتی، پھر ہماری تباہی و بربادی کا یوں سرعام تماشہ نہ ہوتا۔

ان مایوس کن حالات میں بھی ہمیں چاہیئے کہ اللہ پر ایمان اور بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دردمند دل کے ساتھ انتہائی پیار محبت اور خلوص سے اسلامی تعلیماتِ اخوت کا نقشہ اپنے معاشرہ میں پیش کریں۔ اسلامی ہمدردی کے نمونے پیش کریں، محتاجوں، لاچار مریضوں، غریب بیواؤں، یتیم بچوں اور نادار لوگوں کی امداد محض اللہ تعالٰی کے لئے کریں، رسول رحمت (ص) کی دین دُکھیوں کے لئے محبت و مودت کو دل کی دھڑکن اور روح کی تسکین کا سامان بنا لیں، اصحاب نبوی (ص) کی قربانیوں کو اپنی روحوں کی غذا بنا لیں، قرآن و حدیث کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا قرار کر دکھائیں اور دوسروں کے لئے دل میں محبت کے وہی جذبات رکھیں جو اپنوں کے لئے رکھتے ہیں، اختلافی تبصروں اور لاینحل مسائل سے دامن بچا کر صرف اللہ تعالیٰ و رسول رحمت (ص) کی تعلیمات کی آبیاری کریں۔ یقین کریں جب یہ سب ہم سے ہوا تو دنیا ہمارے قدم چومے گی، بس ہم دل و جان سے کچھ اچھا کرنے کی ٹھان لیں۔ ہم سب یاد رکھیں کہ ملت کے عروج اور عزت کی بحالی کے لئے ہم مسلمانوں کی دین سے قلبی و عملی وابستگی ضروری ہے اور روحانی تعلق لازمی ہے۔

ہمارا والہانہ محبت و احترام کے ساتھ یہ تصور رکھنا عین اسلام ہے کہ تمام مسلمان ایک اللہ اور رسول اکرم (ص) پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن کو واحد کتاب ہدایت مانتے ہیں، کعبہ کی طرف رُخ کرکے اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں، دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھ کر اپنے آپ کو امت کا ایک حصہ گردانتے ہیں۔ اسلام دنیا کے تمام انسانوں کو ایک گروہ قرار دے کر اُن کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس لئے اہل اسلام والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اخوت اسلامی کو اپنانے کے بجائے کسی ایسے شخص کو جو ایک اللہ اور آخری رسول نازنین (ص) پر ایمان رکھتا ہو اور قرآن کو واحد رہنما کتاب تسلیم کرتا ہو، صحابہ کبار کی عزت و تکریم جزو ایمان مانتا ہو، اُسے کسی فروعی اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار دیں، اُس کی گردن اُڑانے پر تُل جائیں، اس پر ہاتھ اُٹھائیں، اس کی تذلیل و تحقیر کریں، اس کی املاک کو نقصان پہنچائیں۔ جو بھی فرد یا گروہ اس قسم کی تبلیغ یا کام کرتا ہو، وہ سب سے بڑا جاہل اور اسلام کا دشمن ہی ہوسکتا ہے۔ اسلام اصلاح کے نام پر فساد پھیلانے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا ہے۔ موجودہ نازک حالات میں مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اور اخوت و محبت سے رہنا ہی سب سے بڑی دعوت اسلامی کا کام ہے۔
خبر کا کوڈ : 767837
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش