0
Monday 14 Jan 2019 17:13

اب ٹرمپ کے رخصت ہونے کی باری ہے

اب ٹرمپ کے رخصت ہونے کی باری ہے
تحریر: ہادی محمدی

امریکہ کے اندرونی حالات اور مغربی ایشیا پر حکمفرما سیاسی معادلات نے مل کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شام سے فوجی انخلا کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کا یہ فیصلہ صرف شام تک محدود نہیں بلکہ امریکہ کے نائب صدر کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کے تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی پر بھی نظرثانی کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اس بات پر بھی زور دے چکے ہیں کہ افغانستان سابق سوویت یونین کا رشین فیڈریشن میں تبدیل ہو جانے کا باعث بنا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اندر بہت واضح معنی رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ صہیونی حکام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حکمت عملی کے شدید مخالف ہیں اور وہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے ذریعے امریکی صدر کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن اسرائیلی لابی کا یہ دباو صرف امریکی صدر کے فیصلے کے اجرا میں کچھ تاخیر کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر پایا۔ شام اور عراق میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی سکیورٹی اور سیاسی سفارتکاری انتہائی جلدبازی میں ترکی اور فرانس سے بعض ایمرجنسی ڈیلز کرنے میں مصروف ہے تاکہ امریکہ کے فوجی انخلا کے منفی اثرات کو کم از کم کر سکے۔
 
صدر ڈونلڈ ٹرمپ بعض اخراجات کی ادائیگی سے بڑھ کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے توقعات وابستہ نہیں کر سکتے جبکہ اسرائیل بھی دمشق ایئرپورٹ پر ہوائی حملوں کے ذریعے امریکہ کو شام اور خطے میں باقی رہنے پر قانع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا سال حکومت کے جزوی شٹ ڈاوں سے شروع کیا ہے لہذا انہیں بہت زیادہ مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020ء میں چین دنیا کی پہلی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والا ہے۔ یہ بات امریکی حکومت کیلئے ڈراونا خواب بن چکی ہے۔ مزید برآں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس وقت وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے کئی کیس بھی جاری ہیں۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت شدید اندرونی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف امریکی کانگریس بھی بیکار نہیں بیٹھی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بحران ساز خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی تجارت کے بارے میں بھی وسیع پیمانے پر تحقیقات انجام دے رہی ہے۔
 
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے خصوصی تعلقات، روسی حکام سے ملاقاتوں کے بارے میں بعض رپورٹس منظرعام پر نہ آنے دینا، امریکی وزارت خزانہ داری کی جانب سے روسی صدر پیوٹن کی بعض قریبی کمپنیز کا نام اقتصادی پابندیوں کی فہرست سے خارج کرنا اور بعض دیگر ایشوز ایسے ہیں جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بہت مشکل ساز بن چکے ہیں۔ انہیں ایشوز کی بنیاد پر ان کے خلاف کانگریس میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں اور بعض سیاسی حلقوں جن میں امریکی سینیٹ اراکین اور سابقہ حکومتی عہدیدار بھی شامل ہیں کی جانب سے یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ 2019ء کا سال ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار سے علیحدگی کا سال ثابت ہو سکتا ہے۔ ان تمام مشکلات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام اور افغانستان سے فوجی انخلا کے اچانک فیصلے کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن خطے کا دورہ کرنے پر مجبور ہو گئے تاکہ اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے سکیں لیکن ان دوروں کا بھی کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
 
موجودہ امریکی حکومت اس وقت نہ صرف انتہائی مختصر مدت میں مغربی ایشیا کے بعض علاقوں سے فوجی انخلا اور دسیوں فوجی اڈوں میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں واضح کمی کرنے پر مجبور ہو چکی ہے بلکہ اندرونی سطح پر بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رخصت ہونے کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ امر مغربی ایشیا میں امریکی اتحادیوں کیلئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ خطے میں امریکی اتحاد بہت وسیع پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک کی جانب سے دمشق واپس جانے کی جلدی نے حتی امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کو بھی پریشان کر ڈالا ہے۔ وہ اس خوف کا شکار ہو چکے ہیں کہ کہیں امریکہ کے اتحادی ممالک مزید نقصان سے بچنے کیلئے تہران سے قربت کے بارے میں بھی سوچنا شروع نہ کر دیں اور اپنی تمام ناکامیوں کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا شروع کر دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ عرب ممالک کی بھاری رشوت اور صہیونی لابی کی حمایت سے کانگریس میں عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تب بھی ان کے اگلے دو سال بہت زیادہ مختلف ہوں گے۔ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ اگلے دو سالوں میں ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس میں قدم رکھنے کے بعد وہی ابتدائی دو سالوں والے ٹرمپ ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 772033
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش