1
Monday 21 Jan 2019 18:01

کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا
تحریر: ایس ایم موسوی
 
انتظار کی گھڑیاں ختم اب فیصلے کا وقت آپہنچا ہے، جب سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب گلگت بلتستان کے نجی دورے پہ آئے تھے، اس وقت وہ بہت متاثر ہوئے تھے اور جی بی کیس کے سماعت کے دوران انہوں نے کئی مواقع پر اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ جی بی کے عوام پاکستان کے ساتھ وفادار ہیں، وہاں کے ہر پتھر پر پاکستان لکھا ہوا ہے، ایسے محب وطن پاکستانیوں کو مزید حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح کی اور بھی بہت ساری باتیں کہی تھی جس سے یہاں کے عوام سپریم کورٹ اور چیف جسٹس صاحب سے امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن جب7 جنوری کو سپریم کورٹ نے جی بی حقوق کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا تو اپنے ایک کالم کے ذریعے چند باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جس کا نتیجہ اب سامنے آیا ہے۔ جی بی کے عوام پر 2009ء سے اب تک مسلسل مختلف نام اور مختلف انداز میں آرڈر پہ آرڈر جاری کرتے جا رہے ہیں۔ 2009ء میں جاری کردہ نیم صوبائی سیٹ اپ کا خاتمہ اور جی بی آڈر 2018ء جیسے قوانین کے اطلاق سے یہاں کے عوام میں کافی تشویش پائی جا رہی تھی، لیکن نئی حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے تبدیلی کے بلند و بالا نعرے اور وزیراعظم عمران خان کے عبوری صوبہ بنانے کے اعلانات، ساتھ ہی سپریم کورٹ میں جی بی حقوق کے حوالے سے پے در پے سماعت سے عوام میں ایک خوشی دیکھنے کو مل رہی تھی اور اس امید کے ساتھ یہاں کے عوام اطمینان کا سانس لے رہے تھے کہ اب عمران خان کی حکومت ہی ہماری نجات دہندہ ہے اور یقیناً تبدیلی کے بلند و بانگ نعرے بھی اپنے کام کر دکھائیں گے، لیکن جب کمیٹی پہ کمیٹی اور سماعت پہ سماعت کے بعد 7 جنوری کو فیصلہ محفوظ ہوا تو عوام میں شدت سے بےچینی پائی جارہی تھی، البتہ اللہ اللہ کرکے دس دن گزرگئے اور 17 جنوری کا دن آیا تو جس فیصلے کا شدت سے انتظار تھا وہ بھی کانوں سے ٹکرانے لگی کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جاتے جاتے "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے" والی مثال قائم کرکے چلے گئے ہیں۔

نہ ہی ہمارے بنیادی حقوق کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کیا، نہ ہی ہماری شناخت کا باقاعدہ اعلان کیا بلکہ بہتر سال پہلے سے جی بی عوام جس انداز میں تھے اسی کی مبارک بادی کے ساتھ خود اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، جبکہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کرچکا ہوں کہ جب اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق جی بی پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں بن سکتا تو ہر دفعہ نئی بوتل میں پرانی شراب پیش کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیئے اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق اگر یہ خطہ متنازعہ ہے تو متنازعہ علاقہ کے حقوق اور قوانین نافذ ہونا چاہیئیں، تاکہ کم از کم یہاں کے عوام اپنی حقوق کی خود حفاظت کرسکیں، البتہ اس دفعہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنا مایوس کن بھی نہیں ہے جتنا کچھ لوگ اس کو مایوس کن بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں چند نکات قابل غور ہیں۔ اس حکم نامے کے مطابق بہتر سالوں کے بعد جی بی عوام کو سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی تو مل گئی۔ سپریم کورٹ نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ ہم متنازعہ علاقہ ہے تو اب ہمیں مزید آئینی صوبے کے کھوکھلے نعرے لگانے کے بجائے متنازعہ علاقے کے قوانین اور حقوق کے لئے کوشش کرنی چاہیئے، ہمیں اپنے فیصلے کو اپ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں لے جانا چاہیے کہ اگر ہم متنازعہ ہی ہے تو کس بنیاد پر ہمارے رائلیٹی سے حکومت فائدہ اٹھاتی ہے، جب ہم متنازعہ ہیں تو کیسے سی پیک جیسی راہداری اس متنازعہ خطے سے گزر رہی ہے، متنازعہ علاقے میں بادشاہ ڈیم کی تعمیر کس قانون کے مطابق ہونے جارہی ہے؟ یہی متنازعہ علاقہ ہی ہے جو دنیا بھر میں امن اور سیاحت کے نام پہ ملک کا نام روشن کررہا ہے، ہمارے حکمران دنیا کی دوسری بلند چوٹی پر فخرکرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ چوٹی بھی اسی متنازعہ علاقے میں ہی واقع ہے، لیکن جب ہمیں حقوق دینے کی بات آتی ہے تو متنازعہ حثیت یاد آ جاتی ہے۔

ان باتوں سے یہی سمجھ میں آتا ہے یہاں بات صرف متنازعہ حیثیت کی نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور لگتا ہے، لہٰذا اب ہمیں مزید ان بےحس حکمرانوں سے امید لگانے کی بجائے اپنے حقوق کے لئے اقوام متحدہ کی عدالتوں میں آواز اٹھانے کی ضروت ہے اور اب یہی ایک راستہ بچا ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں ورنہ تو باقی تمام طریقے آزما چکے، جن سے مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ اب جی بی کے تمام اسٹیک ہولڈرز، علمائے کرام، قوم پرست راہنما، اور سیاسی پارٹیوں سمیت ارکان اسمبلی و ارکان کونسل کو ایک ساتھ ملکر ہمارے مسائل کو عالمی عدالتوں میں اٹھانا چاہیئے، بصورت دیگر اگر یونہی آپس میں پراکندہ رہیں گے تو ہمیشہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔ سیاسی و مذہبی پارٹیوں میں تقسیم ہوتے رہیں گے، یا قوم پرستی اور وفاق پرستی کا شکار رہیں گے تو کبھی بھی ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہی تفرقہ بازی اور پارٹی بازی ہی ہے جو آج تک ہمیں اپنے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ کبھی لسانیت کو درمیان میں لایا جاتا ہے تو کبھی علاقیت کو ہوا دی جاتی ہے، کبھی مذہب کو ڈھال بنایا جاتا ہے تو کبھی سیاست کو، ہم سمجھتے کیوں نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے اور ہم کتنے آسانی سے ان سازشوں کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ جس طرح ہمارے خمیر میں وطن سے وفاداری شامل ہے اسی طرح ہماری رگوں میں علاقائی خون بھی ڈورتا ہے۔ اگر بہتر سالوں سے ہم نے الحاق کے لئے کوششیں کیں، جنہیں کامیاب نہ ہونے دیا اگر حکمرانوں کو ہماری ضرورت محسوس نہ ہوئی تو ہم انصاف کے لئے ایک دفعہ عالمی عدالتوں میں آواز اٹھائیں۔ ممکن ہے اس میں ہماری کامیابی ہو، چونکہ بغیر کسی محنت کے جو چیز بھی پیش کی جاتی ہے اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

ہمارے آباؤ اجداد نے جب اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے آزاد کرا کر اس خطے کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا، تبھی تو آج تک ہمیں لٹکائے رکھا جا رہا ہے، اگر اس خطے کے حصول کیلے ریاست کو معمولی بھی زحمت کرنی پڑتی تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا جبکہ ہمارے اس خطے کی حصول کے لئے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں، لیکن ہمارے حکمران بےحسی کے آخری درجے پر ہیں اور ہم ہیں کہ بہتر سالوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہم پاکستانی بنیں گے۔ جب ہم ڈنڈوں کے ذریعے بغیر کسی مدد کے اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں، تو آج ہم اپنے حقوق بھی لے سکتے ہیں اس کے لئے شرط ہے کہ سب ایک نکتے پر جمع ہو جائیں چونکہ جب تک ہم اپنی طاقت اور اہمیت کو نہیں جانیں گے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا آخر میں یہی التماس ہے کہ سب مل کر ایک دفعہ جذبات کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کریں اور اسی فیصلے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی عدالتوں سے رجوع کرکے ہماری حثیت کو واضح کرائیں چونکہ سپریم کورٹ کو ہماری متنازعہ حیثت تو نظر آگئی، لیکن متنازعہ حقوق نظر نہیں آئے، صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اگر ہم واقع متنازعہ ہی ہیں، تو متنازعہ علاقے کے قوانین اور حقوق بھی بحال ہونے چاہیئیں تاکہ ہمارے حقوق کے تحفظ اور مستقبل کا فیصلہ کسی اور کی بجائے ہم خود کرسکیں۔

شریک جرم ہی ہوگا جو اب رہا خاموش
قسم خدا کی یہ مٹی وفا کو ترسے گی
خبر کا کوڈ : 773480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش