0
Tuesday 22 Jan 2019 23:22

گلگت بلتستان تاریخ کے اہم موڑ پر۔۔۔

گلگت بلتستان تاریخ کے اہم موڑ پر۔۔۔
تحریر: شیر علی انجم

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بنچ کی جانب سے گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے تاریخی فیصلے کے بعد گلگت بلتستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم یہاں کے شہریوں میں ایک ہیجانی سی کیفیت نظر آرہا ہے۔ جہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک اور ٹیوٹر پر اور واٹس ایپ گروپس میں گلگت بلتستان کے حوالے سے روائتی مطالبات سے بالکل ہی الگ ڈیمانڈ زور پکڑ رہی ہے وہیں گراونڈ لیول پر اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جبکہ کراچی، لاہور سمیت گلگت بلتستان کے کئی اضلاع میں اس حوالے سے احتجاج سے ایسا لگتا ہے کہ اس بار گلگت بلتستان کے عوام وعدہ نہیں فیصلہ چاہتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ پچھلے اکہتر سالوں نے وفاق کے زیرانتظام ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی گلگت بلتستان کے لوگوں نے یکم نومبر 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے وجہ سے بغاوت کرکے جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی، لیکن بدقسمتی سے اس نومولود ریاست کو وجود میں آئے دو ہفتے بعد ہی کئی قسم کی سازشوں اور وجوہات کی بناء پر اپنی حیثیت بحال رکھنے اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اُس وقت سے لیکر آج تک یہاں کے عوام کو حقوق کے نام پر پیکج دیکر بہلایا جارہا ہے اور ایک طرف متنازعہ ہونے کا اعلان کرتا ہے دوسری طرف متنازعہ حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔

قارئین مورخہ 17 جنوری کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیکر اس خطے کو عبوری طور پر پاکستان میں شامل کرنے کی بجائے یو این سی آئی کی قرارداوں کی روشنی میں متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے حکم کے بعد احتجاج اور مطالبات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے ہونا باقی ہے لیکن اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق بھارت اور پاکستان اپنے زیرانتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد اکہتر سالوں سے پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بننے کی خواہاں عوام مکمل طور پر نااُمید نظر آتی ہے۔ عدالت عالیہ کی جانب سے جو فیصلہ آیا ہے وہی اس خطے میں قوم پرستوں کا ہمیشہ سے نظریہ رہا ہے، یہاں کی قوم پرست جماعتیں ہمیشہ سے کہتی رہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اور اس حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اقوام کی قرارداد UNCIP کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری سے پہلے ایسا ممکن نہیں۔ بدقسمتی اس بات کی بھی ہے کہ گلگت بلتستان میں آج تک اس نظریئے کو ایک طرح سے حکومتی سطح پر گالی سمجھتے رہے اور اس نظریہ کو پیش کرنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے گلگت بلتستان دشمن، غدار جیسے القابات سے نوازا گیا، فورتھ شیڈول اور غداری کے مقدمات بنائے گئے، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے کے بعد اس وقت گلگت بلتستان میں سیاست کرنے والی تمام وفاقی پارٹیوں کے موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے۔

پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صدر نے سیاسی جدوجہد میں ناکامی کا اعتراف کرلیا، تحریک انصاف چونکہ اس وقت اقتدار کی راہ دیکھ رہی ہے اور اسکے منشور میں پہلے ہی داخلی خودمختاری کا وعدہ شامل ہے، لیکن عمل درآمد کرانے کیلئے مقامی سطح پر قیادت کے گروبندی کا شکار ہونے کی وجہ سے اب تک وزیراعظم کے سامنے گلگت بلتستان کا مقدمہ پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے، حکمران جماعت مسلم لیگ ہمیشہ سے گلگت بلتستان کو متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق دینے کے حق میں رہا ہے لیکن اب چونکہ وہ اقتدار میں اس وجہ سے اُنہوں نے اس معاملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی ہے، مذہبی جماعتوں نے بھی احساس کرلیا ہے کہ ہم نے عوام سے جھوٹ بول کر اقتدار حاصل کیا ہے لیکن سیاست میں زندہ رہنے کیلئے اخباری بیانات کے ذریعے عوام سمجھانے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے، جبکہ اندرونی طور پر اُنہوں نے بھی ہار مان لی ہے۔ یوں اس تمام صورتحال کے بعد یہ بات واضح ہوگیا کہ گلگت بلتستان کا مقدمہ خواہشات کی بجائے بین الاقوامی قوانین اور اُن قوانین کے حوالے سے ریاست پاکستان کی پالیسی اور اقوام متحدہ کے متفق چارٹرڈ کے مطابق حل ہوگا۔ جس کا مطلب گلگت بلتستان کے عوام کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری تک انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن اُس سے پہلے یہاں کے عوام کے کچھ حقوق ہیں جن کی حصول کیلئے اس وقت یہاں کی تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں ایک پیج پر نظر آتی ہیں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے پہلے مرحلے میں عوامی اگہی مہم چلانے فیصلہ ہوا ہے۔

اس حوالے سے پہلی بار گلگت بلتستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے، جس کے مطابق کہا یہ گیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خطے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے تمام شکوک شبہات دور ہو گئے اور عوامی مطالبے پر عمل نہ ہونے اور ایسا کرنے کی صورت میں ریاست پاکستان کیلئے بین الاقوامی سطح پر مسائل بھی درپیش ہونگے، لہٰذا اس خطے کے متنازعہ بنیاد پر حقوق کو یقینی بنائیں۔ گذشتہ روز اسلام آباد میں منعقد آل پارٹیز کانفرنس میں بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان اب مزید کسی قسم کے آرڈر کا متحمل نہیں، لہٰذا اب یہاں کے عوام کی حق تلفی کے سلسلے کو ختم کرکے گلگت بلتستان کو 13 اگست 1948ء کے (یو این سی آئی پی) متفقہ قراداد کی روشنی میں لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنائیں اور یہاں بھی دیگر دو اکائیوں کی طرح قانون باشندہ ریاست جموں کشمیر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں سمیت تمام قسم کے غیر قانونی قوانین کے گلگت بلتستان میں ناجائز استعمال کو روکیں۔ محترم قارئین تقسیم برصغیر اور گلگت بلتستان کے نامکمل انقلاب کے بعد کی صورت کے بعد جواہر لال نہرو 1 جنوری 1948ء کو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لیکر گیا اور وہاں ایک کمیشن بنا، اُس کمیشن کو بین الاقوامی طور پر UNCIP کہتے ہیں، اس کمیشن پر مملکت پاکستان اور ہندوستان دونوں نے دستخط کئے ہوئے ہیں۔

یہ طے پایا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا 84 ہزار مربع میل خطہ متنازعہ ہے اور اس خطے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کسی ملک میں شامل ہونے یا الگ ریاست کیلئے رائے شماری ہونا باقی ہے۔ اُس وقت تک کیلئے پاکستان چھے ہفتوں کے اندر گلگت اور مظفر آباد میں لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنائے اور اسی فیصلے کی گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی توثیق کردی ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے کے اکہتر سالہ سیاسی، معاشی اور اقتصادی محرومیاں ختم کرنے اور سی پیک کے تناظر میں عالمی اور بھارتی سازشوں کو روکنے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے عوام ایک پیج پر نظر آتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم جو گلگت بلتستان میں بن رہا ہے لیکن بھاشا کا نام شامل کرکے رائلٹی پختونخواہ کو دی جائے گی، سی پیک کیلئے اس خطے کا چھے کلومیٹر رقبہ استعمال ہوریا ہے لیکن اس خطے کو نظر انداز کیا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس ففتھ جنریشن وار کے دور میں گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق مانگنے کے جرم میں غداری جیسے مقدمات کے ذریعے خاموش کرانے کی کوششوں کی بجائے گلگت بلتستان کے ساتھ ایک عمرانی معاہدہ کریں اور یہاں کی لوکل اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ دیکر یہاں کے عوام کو اپنے وسائل پر حق حکمرانی دیں اس خطے کے وسائل کو بروئے کار لاکر پاکستان کو درپیش لوڈشیڈنگ سے مکمل طور پر نجات دلائیں کیونکہ یہاں ہائیڈور الیکٹرک کے وسیع مواقع موجود ہیں، اسی طرح یہاں سیاحت کی فروغ کیلئے بھی انقلابی اقدام اُٹھایا جاسکتا ہے، جس سے یقینا فائدہ ملکی معیشت کو ہوگا۔ یوں اگر حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح عوام کو تنگ کرکے ریاستی رٹ قائم کرنے کے فارمولے کو ترک کرکے اختیارات اسلام آباد سے گلگت اسمبلی کو تفویض کرتی ہے تو فائدہ مملکت پاکستان کو ہی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 773656
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش