0
Sunday 27 Jan 2019 23:21

امریکہ ایران پر حملے کی سوچ میں ہے؟

امریکہ ایران پر حملے کی سوچ میں ہے؟
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
اسلامی تعلیمات اور حکم خداوندی ہے کہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بن کے رہو، مگر افسوس کہ آج کا مسلمان ہو یا مسلم ریاست، ان الہیٰ احکامات سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ آج ظالم مملکتوں کے حوصلے بلند اور مسلمان مظلوم بنے ہوئے ہیں۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس عصر کے ظالم کی پہچان کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور دنیا پر واضح کر دیا کہ امریکہ اس وقت کا سب سے بڑا شیطان ہے۔ آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کئی اسلامی ممالک کی اکثریت امریکہ کے تسلط اور غلامی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوسکی، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ مسلم ریاستیں اپنے دوست اور دشمن کی پہچان ہی نہیں کر پائیں تو غلط نہ ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں صرف اور صرف ایران ہی وہ مملکت ہے، جو شیطان بزرگ امریکہ کیخلاف کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود سینہ تانے کھڑی ہے۔ امریکہ انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سے ہی ان کوششوں میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اس حقیقی دشمن (ایران) کو زیر کرے۔ کبھی پابندیاں، کبھی حملوں کی دھمکیاں، کبھی دنیا میں تنہاء کرنے کی کوششیں۔ تاہم اب تک واشنگٹن کے سب کے سب حربے تہران کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
 
گذشتہ دنوں روس کے ایک معروف تجزیہ کار ویلادیمیر سگین کی جانب سے ایک کالم ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے میں شائع ہوا، جس میں ان کا کہنا ہے تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سکیورٹی امور کا معاون خصوصی جون بولٹن ایران پر حملے کا سوچ رہا ہے۔ کالم نگار ایک امریکی اخبار میں لیک ہونے والی اس خبر پر تبصرہ کر رہے تھے کہ جس نے گذشتہ ہفتوں سے عالمی میڈیا کے ایک بڑے حصے کو مصروف کر رکھا ہے۔ اخبار وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ امریکی سابقہ اور موجودہ کچھ سیاست دانوں نے انہیں بتایا ہے کہ بولٹن کی قیادت میں امریکی نیشنل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے پینٹاگون سے کہا تھا کہ وہ ایران پر حملے کے لئے تیار ہو جائے۔ بولٹن نے ایران پر حملے کا بہانہ وہ چند راکٹ بتائے تھے، جو عراق میں امریکی قونصل خانے کے قریب آگرے تھے کہ جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے پچھے ایرانی حمایت یافتہ گروہ ہوسکتے ہیں، جبکہ اس سے پہلے بغداد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں جہاں امریکی ایمبیسی بھی موجود ہے، چند راکٹ آگرے تھے۔ اس واقعہ کے بعد امریکی قومی سلامتی کے ادارے نے کچھ میٹنگز کیں اور ان میٹنگز کے بعد بولٹن نے پینٹاگون سے کہا کہ وہ ایک حملے کے آپشنز کے بارے میں بریف کریں۔
 
ویلادیمیر سگین کا مزید کہنا ہے کہ ہر ملک کی مسلح افواج کے ہیڈکوارٹر میں ایسے مسائل میں کچھ ابتدائی اقدامات کے بارے غور کیا جاتا ہے کہ جس میں ایک طاقت کے حامل دشمن پر ضرب لگانا اور اپنا دفاع کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوجی ہیڈکوارٹر میں بھی ایران کیخلاف مختلف قسم کے آپشنز پر غور و خوص کیا جا چکا ہے۔ جان بولٹن کا ایشو کچھ اور پہلو رکھتا ہے، کیونکہ آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ بولٹن کی جانب سے پینٹاگون کو ایران پر حملے کے آپشنز کے لئے تیار رہنے کی بات صدر ٹرمپ کے علم میں لائے بغیر ذاتی نوعیت کی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات پینٹاگون کے لئے بھی اچھنبے کی لگی کہ جس کی وہ بالکل بھی توقع نہیں رکھ رہا تھا، یہاں تک کہ پینٹاگون کے بہت سے آگاہ اور جانکاری رکھنے والے ملازمین حیرت زدہ تھے۔ وال اسٹریٹ کے مطابق پینٹاگون نے تمام تر آپشنز کے بارے میں معلومات فراہم کیں، بشمول ایسے فضائی حملے جو ایرانی اہم تنصیبات پر کئے جائیں، ظاہر ہے کہ اس قسم کے حملے کا مقصد عسکری سے زیادہ سیاسی اہداف ہوتے ہیں، لیکن اسی دوران اس وقت کے وزیر دفاع میٹس سمیت بہت سے اہم ذمہ داروں نے اس قسم کے کسی بھی حملوں کی مخالفت کی اور یوں آخر کار یہ مسئلہ ناقابل عمل ہوکر رہ گیا۔
 
آج میٹس کی جگہ نیا وزیر دفاع آیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ارادے کیا ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایران پر کسی بھی قسم کا ایک حملہ ایک وسیع تصادم کو شروع کرسکتا ہے۔ اگر ہم ایران کی اہم تنصیبات پر کسی بھی قسم کے فضائی حملوں کو پیش نظر رکھیں تو بھی اس کا نتیجہ خطے میں موجود امریکی اڈوں پر ایرانی جوابی میزائل حملوں کی شکل میں نکل آئے گا۔ پینٹاگون تہران کی دفاعی صلاحیتوں اور نظریاتی و فکری تربیت سے اچھی طرح واقف ہے اور اسی لئے ایران پر کسی بھی قسم کی امریکی کارروائی کو محض شیخ چلی کا منصوبہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ روسی کالم نگار کا یہ تجزیہ حقیقت کے کافی قریب دکھائی دیتا ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں بولٹن جیسے اہم امریکی عہدیدار کی اس قسم کی سوچ یا ارادہ زمینی حقائق سے کافی دور نظر آتا ہے۔ بولٹن کا شمار ایران کے سخت مخالفین میں ہوتا ہے۔ سابق امریکی صدر جارج بش کے دور سے لیکر اب تک بولٹن کے ایران مخالف ارادوں سے دنیا آگاہ ہے۔
 
اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو امریکہ گذشتہ چند سالوں کے دوران کمزور ہوا ہے، عراق اور شام میں امریکی منصوبوں کی شکست، افغانستان کی مشکلات، ایران کے علاوہ چین اور روس کا رویہ بھی واشنگٹن کیلئے مشکلات بڑھانے کا موجب بنا ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب ٹرمپ امریکہ کو مشکلات سے نکالنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں، ایران کیخلاف خطرناک محاذ کھولنا کسی صورت واشنگٹن کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے کہ ماضی میں متعدد بار امریکہ نے کئی مواقع پر مضبوط پوزیشن میں ہونے کے باوجود ایران پر حملہ کی غلطی نہیں کی، لہذا آج جبکہ تہران کا دفاع مضبوط ہونے کیساتھ ساتھ اسکے دوستوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور واشنگٹن کی مشکلات میں تو کسی ایڈونچر کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایران اس وقت بھی امریکہ کا دشمن نمبر ایک ہے اور اس کے مکروہ عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہونے کیساتھ ساتھ امت مسلمہ کیلئے سب سے اہم سہارا بھی ہے، تاہم امریکہ اس سب کے باوجود بولٹن کی سوچ پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 774646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش