0
Monday 11 Feb 2019 09:12

اندھی تقلید

اندھی تقلید
تحریر: اسماء طارق، گجرات
 
عدالت سے ایک فیصلہ آتا ہے، مگر پوری قوم کچھ جانے بغیر ایک شخص کی پیروی میں سڑکوں پر نکل آتی ہے، آگ لگاتی ہے، ٹائر جلاتی ہے اور پورے ملک میں دہشت پھیل جاتی ہے۔ فلاں فرقے کا مولوی اعلان کرتا ہے کہ فلاں کافر ہے تو سارے مکین علاقہ ایک پل سوچے سمجھے بغیر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور فلاں شخص کو جہنم واصل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ تحریک انصاف کے عمران خان یو ٹرن کے حق میں دلیل دیتے ہیں تو پوری تحریک انصاف جناب صدر تک یہ جانے بغیر کہ یو ٹرن کیا ہے، اپنے لیڈر کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور تبدیلی کے دیوانے لبیک کی صدا لگائے پھرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو ایک خواب دیکھتے ہیں، خواب کی حقیقت جانے بغیر ساری پیپلزپارٹی اور جیالے سبحان اللہ، سبحان اللہ کی پکار لگائے پھرتے ہیں۔
 
سسر بہو پر شک کا اظہار کرتا ہے کہ بیٹا ایک سیکنڈ میں کوئی بات سنے بغیر بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ جنڈ میں ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں کا کردار اچھا نہیں، ایک پل سوچے بغیر کہ وہ سچ کہہ رہا کہ نہیں، سب اس بدکردار کو جڑ سے مٹانے  چلے جاتے ہیں۔ نجی ٹی وی کا ایک اینکر عوام سے ایک انٹرویو لیتا ہے، جس میں وہ کہتا ہے کہ حکومت ٹک ٹاک کو بند کرنے جا رہی ہے (جو کہ موبائل اپلیکیشن ہے، جس میں  نوجوان وڈیوز بناتے ہیں) تو ایک بھی شخص اس سے نہیں پوچھتا کہ یہ کیا ہے، چند افراد کہتے کہ اچھی بات ہے اور باقی سب کہتے ہیں کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے، آگ لگا دیں گے، کیونکہ غریب بھوکا مر جائے گا۔۔۔ باقی عوام  ٹی وی دیکھ رہی اور ہنس رہی ہے کہ کتنے بیوقوف ہیں، حالانکہ اگر ان سے کہا جاتا تو انہوں نے بھی سڑکوں پر ہی نکلنا تھا۔
 
لڑکا سکول سے واپس آتا ہے، ماں کو بستہ تھماتا ہے اور اپنا بلا لے کر بھاگتا ہے۔ ماں پوچھتی ہے کہ کہاں جا رہے ہو تو کہتا ہے کہ کسی کی پٹائی ہو رہی، اسے مارنے۔ ماں کہتی ہے کیوں، تو لڑکا کہتا پتہ نہیں، پر مجھے دیر ہو رہی ہے، کہیں وہ بھاگ نہ جائے، میرے سب دوست وہاں اسے مار رہے ہیں۔۔۔ آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ یہ سب کیا ہے، اتنی لمبی تمہید کس لیے تو جناب والا یہ سچ ہے، صورتحال پریشان کن ہے، لیکن ہمارے رویئے ہیں، جو حقیقی صورتحال سے زیادہ خطرناک اور بدصورت ہیں۔ ہم نہ سوچتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں، بس جس ڈگر پر کوئی چل رہا ہوتا ہے، ہم بھی چل پڑتے ہیں۔ کوئی جو کچھ بھی کہہ رہا ہے تو ہمیں کیا، ہم تو بس لبیک کہتے ہیں اور خاص طور پر جب ہم اس سے عقیدت رکھتے ہوں تو پھر تو یقین اور بڑھ جاتا ہے۔

ہم اندھی عقیدت رکھتے والے لوگ ہیں، ہمارے ہاں ہر ایک کی اندھی تقلید کی جاتی ہے، کوئی سیاستدانوں کا پیروکار ہے تو وہ آنکھ بند کرکے اپنے لیڈر کی پیروی کرے گا۔ جو اس کا لیڈر کہہ رہا ہے، بس وہی ٹھیک ہے، چاہے وہ کچھ بھی کہہ رہا ہو۔ نہ ہم اسے جاننے کی اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، بس وہ جو کہہ رہا ہے، وہی اٹل ہے، کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا ہے، اگر ہم نے ذرا سا اپنا دماغ استعمال کیا اور اس کی مخالفت میں کچھ سوچ لیا، یا کہہ دیا تو ہماری عقیدت میں کمی آجائے گی اور یہی حال ہمارے دینی اور دیگر پیروکاروں کا ہے، کیونکہ ہم جس کی تقلید کریں گے، سو فیصد کریں گے، آنکھیں بند کرکے بنا سوچے سمجھے کہ وہ جو کہہ رہا ہے، وہ کیا ہے اور ٹھیک بھی ہے کہ نہیں۔ کسی سے عقیدت رکھنے یا کسی کا پیروکار ہونے کا ہرگز مطلب یہ تو نہیں ہوتا ہے کہ آپ اس کی اندھی تقلید شروع کر دیں۔ وہ بولے دن تو آپ بھی دن بولیں، وہ بولے شام تو آپکی شام ہوگئی۔۔۔۔

یہ عقیدت نہیں بیوقوفی ہے کہ آپ نے اپنے دماغ سے کام لینا ہی بند کر دیا ہے اور سوچنا سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے، جبکہ آپ بھی ایک انسان ہیں، جس کی اپنی سوچ  ہے، اپنا دماغ جو کام بھی کرتا ہے اور سوچتا سمجھتا بھی ہے۔۔۔ اپنا نظریہ ہونا ہر شخص کا حق اور اس کا بیان کرنا بھی۔ اسی طرح قبول کرنے سے پہلے دوسروں کے نظریوں کو جانچنا اور پرکھنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔ اس سے نہ تو کسی کی عقیدت میں کمی ہوتی اور نہ کسی کی تذلیل ہوتی اور ہمارا مہذب تو خود ہمیں سوچنے سمجھنے اور کھوجنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اسی کھوج اور سمجھ سے دوری کے نتیجے میں ہم یہ نقصان اٹھا رہے اور بیوقوف بن رہے ہیں اور اس کی وجہ ہماری بے خبری اور اندھی عقیدت ہے۔ اب جیسا کہ اپنی رائے ہونا تو بہت ہی اچھی بات ہے، مگر دوسروں کی رائے کا احترام بھی لازم ہے۔
 
ہمیں کسی بھی بات پر ردعمل دینے سے پہلے کم از کم ایک بار سوچ لینا چاہیئے کہ یہ کیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے، کہنے والے نے ایسے ہی تو نہیں کہا، بات میں سچائی ہے کہ نہیں، فیصلہ قانون کے مطابق ہے کہ نہیں، فلاں شخص کافر، چور، ڈاکو  ہے بھی کہ نہیں۔ بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ پہلے جانچ پڑتال کر لیں اور اگر ہم اس سوچ کو زندگی کے ہر میدان میں شامل کر لیں تو چیزیں کافی حد تک درست ہو جائیں گی۔ فلاں چیز کیا ہے اور اس کے ہونے سے اثرات کیا پڑیں گے، ہمیں  کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیئے، ہمارا ایک غلط قدم پوری قوم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہم ایک  جذباتی اور فوری ردعمل دینے والی قوم ہیں، ہم سوچتے سمجھتے نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور انہی جذبات میں ہم نے بہت سے نقصانات اٹھاتے آئے ہیں، مگر اب اس عوام کو پہلے سوچنا ہوگا، پھر ماننا ہوگا، تب ہی کوئی ردعمل دینا ہے، کیونکہ جب تک رویئے بہتر نہیں ہونگے، تبدیلی نہیں آسکتی
اور ترقی دراصل رویوں ہی کی ترقی ہے۔
خبر کا کوڈ : 777306
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش