0
Saturday 20 Apr 2019 16:40

قرآن اور امام زمانہ علیہ السلام

قرآن اور امام زمانہ علیہ السلام
تحریر: عظمت علی
 
قریب قریب دنیا کے تمام مذاہب میں آخری زمانہ میں ایک منجی بشریت کی آمد کا اعتقاد موجود ہے۔ نام کا اختلاف اگرچہ ہو مگر ظلم و جور سے بھری کائنات کو عدل و انصاف سے پر کر دینے والی شخصیت کا ظہور سبھی کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ بھی اختلافی مسائل میں سے ہے کہ ان کی ولادت ہو چکی ہے یا ہو گی، لیکن شیعہ عقائد کا ماننا ہے کہ اس کی آمد ہو چکی ہے، بس اس کے ظہور کا انتظار ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات میں اس منجی عالم کا ذکر ملتا ہے، سورہ قدر اس کی عیاں دلیل ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہوتا ہے۔ "تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ" اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ  تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں۔ 1۔ مذکورہ آیت میں "تنزل"، مضارع کا صیغہ ہے جو زمانہ حال اور مستقبل دونوں کو بیان کرتا ہے اور خود "تنزل" باب تفعل سے ہے، جو دوام اور استمرار پر دلیل ہے۔ اسی طرح، سورہ دخان میں اسی مضمون کی ایک آیت کا ذکر ملتا ہے۔"فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏" اس رات میں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 2

مندرجہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے ملائکہ اور روح اس رات اللہ کا حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ ان آیات سے اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے ملکوتی نظام میں ایک رات ایسی ہے جس میں سال بھر کے امور کے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی سال میں ایک بار لوگوں کے مقدرات کی تجدید فرماتا ہے۔ تقدیر کی تجدید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے دو فیصلے ہوتے ہیں، ایک فیصلہ اٹل لایتغیر ہوتا ہے جس کو "سُنَّۃَ اللّٰہِ" سے تعبیر فرمایا، "وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا"۔3 اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ دوسرا فیصلہ قابل تغیر ہے فرمایا، "یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ" ۔4 اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔ اگر اللہ کے حتمی فیصلے نہ ہوتے تو اس کائنات کی کسی چیز پر بھروسہ نہ آتا اور اگر کچھ فیصلوں میں لچک کی گنجائش نہ ہوتی تو انسان مجبور ہوتا اور اپنے اعمال و کردار کا اس پر کوئی اثر مترتب نہ ہوتا۔ اس سلسلے میں فرمایا، "اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ۔۔۔۔۔۔ "۔5 اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔

حدیث میں ہے، "لا یرد القضاء الا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر"۔ 6 اللہ کے فیصلے کو صرف دعا روک سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر لمبی ہوتی ہے۔ اور جب انسان کے اعمال اور کردار کے اس کی قسمت اور تقدیر پر اثرات مترتب ہوتے ہیں تو ان اثرات پر مشتمل ایک نئی تقدیر کی ترتیب کے لئے سال میں ایک شب کا تعین فرمایا۔ اپنی تقدیر سازی نہ ہو سکی تو ایک رات میں اپنی قسمت سنوار سکتا ہے۔ 7 ان آیات کے مطالعہ سے اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ ملائکہ اور روح القدس نازل ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ تا آئندہ یوں ہی رواں رہے گا۔ حیات پیغمبر اسلام میں ان کے مقدس وجود کا جائے نزول آپ کی ذات گرامی تھی، لیکن سوال آپ کی وفات کے بعد کا ہے، کیا رحمت دو عالم  کے رخصت ہونے سے ملائکہ اور روح القدس کا سلسلہ ٹوٹ گیا یا سابقہ تسلسل ابھی بھی باقی ہے اور تاقیامت رواں رہے گا اور اگر اس میں قیامت تک استمرار ہے تو یہ ملائکہ اور روح القدس کس پر نازل ہوتے ہیں؟ شیعہ جواب دیتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارہ جانشین ہیں اور ان میں سے آخری ہستی ہنوز با حیات ہے، لہٰذا شیعہ عقیدے کے مطابق ملائکہ اور روح القدس، آپ کی ذات گرامی پر نازل ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں متعدد روایات بھی ہمارے دعوٰی کی مضبوط دلیل قرار پاتی ہیں۔  درج ذیل حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔"یا معشر الشیعة! خاصموا بسورة انّا انزلناه تفلحوا، فواللَّه انّها لحجة اللَّه تبارک و تعالی علٰی الخلق بعد رسول اللَّه صلی الله علیه وآله، و انّها لسیّدة دینکم و انّها لغایة علمنا. یا معشر الشیعة! خاصموا"۔ ب "حم وَالْکِتابِ الْمُبِینِ إِنّا أَنزَلْناهُ فِی لَیْلَةٍ مُّبارَکَةٍ إِنّا کُنّا مُنذِرِینَ"، فانّها لولاة الامر خاصة۔" 8 امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں، اے گروہ شیعہ! سورہ "انا انزلنا " کے سہارے (ہماری امامت کے مخالفین) پر حجت قائم کرو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ خدا کی قسم! یہ سورہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد لوگوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ سورہ تمہارے دین کا سردار اور ہمارے علم و آگاہی کی انتہا ہے۔ اے گروہ شیعہ! سورہ "حم و الکتاب المبین، انا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین" کے ذریعے (ہمارے دشمنوں کے) ساتھ مناظرہ کرو۔ اس لئے کہ یہ آیتیں رسول اسلام کے بعد امر امامت سے مخصوص ہیں۔ زیر بحث آیات خدا کی جانب سے ایک ولی امر مطلق کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ لہٰذا، جو شخص بھی شب قدر میں فرشتوں کے ہمیشگی نزول کو قبول کرتا ہے، تو اسے یقینی طور پر ایک ولی امر کو بھی قبول کرنا پڑے گا، ورنہ قرآن کی بعض آیات کی نسبت مؤمن اور بعض کی نسبت کافر کہلائے گا۔9
 
 سورہ نساء  میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے، "و يقولون نؤمن ببعض و نكفر ببعض و يريدون أن يتّخذوا بين ذلك سبيلاً ٭ أولئك هم الكافرون حقّاً و أعتدنا للكافرين عذاباً مهينا" اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان میں سے کوئی نیا راستہ نکالیں۔ تو درحقیقت یہ لوگ کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے بڑا رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ 10 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا، شب قدر پر ایمان لاؤ اس لئے کہ یہ رات میرے بعد علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ان کی اولاد سے گیارہ افراد کی امامت کی دلیل ہوگی۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، "من انکر المھدی فقد کفر" جس نے مھدی کا انکار کیا وہ کافر ہے۔ 11 علی بن ابراہیم قمی نے شب قدرفرشتوں کے نزول کی تفسیر میں لکھا ہے،فرشتے اور روح القدس شب قدر کو امام زمانہ علیہ السلام پر نازل ہوتے ہیں اور اگلے سال تک انسانوں کی جو سرنوشت مقرر ہوتی ہے اسے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث میں نقل کیا ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا، کیا آپ جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے؟ آپ نے فرمایا، کیسے نہ جانیں حالانکہ شب قدر، فرشتے ہمارے اوپر نازل ہوتے ہیں اور ہمارا طواف کرتے ہیں۔12 المختصر، شب قدر میں فرشتے پورے ایک سال کے مقدرات کو ”زمانہ کے ولی مطلق“ کی خدمت میں لے کر آتے اور اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں فرشتوں کے نازل ہونے کی جگہ آپ کی ذات تھی اور آپ کے بعد آپ ہی کے جانشین پر نازل ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ (سورہ قدر آیت 4)
2۔ (سورہ دخان آیت 4)
3۔ (۳۳ احزاب: ۲۶)
4۔ (۱۳رعد: ۳۹)
5۔ (۱۳ رعد: ۱۱)
6۔ (13 رعد: 13)
7۔ (تفسیر الکوثر، سورہ دخان کی آیت چہارم کے ذیل میں، شیخ محسن علی نجفی)۔
8۔ (کافی، ج ۱، ص ۲۴۹ اور وجود امام مهدی علیه السلام از منظر قرآن و حدیث، تالیف؛ علی اصغر رضوانی، صفحۃ 15.16) نشر: قم: مسجد مقدس جمکران، ۱۳۸۵۔ چاپ سوم: زمستان ١٣٨٦۔)
9۔ (سورہ نساء 50.51)
10۔ (کمال الدین، ج ۱، ص ۲۸۰ - ۲۸۱، ح ۳۰ اور وجود امام مهدی علیه السلام از منظر قرآن و حدیث تالیف علی اصغر رضوانی، صفحہ نمبر 1، مقدس جمکران، ۱۳۸۵۔چاپ سوم: زمستان ۱۳۸۶)
11۔ (علامه مجلسي، بحار الأنوار، ج 51، ص 51 / منتخب الاثر، فصل 10، ب 1، جز 1، ص 492)
12۔ (امراء هستي، ص 190/ تفسير القمي، ص 731/ علامه مجلسي، بحارالانوار، ج 97، ص 14، جز 23) 
خبر کا کوڈ : 789705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش