0
Tuesday 27 Aug 2019 09:58

دنیا کو راکھ کر دینے والی جنگ کے اشارے

دنیا کو راکھ کر دینے والی جنگ کے اشارے
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بعد پیدا پونیوالی پاک بھارت کشیدگی کے متعلق امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور مقبوضہ جموں اور کشمیر کی حالیہ صورت حال جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے لیے چنگاری فراہم کرسکتی ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، ساتھ ہی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کیلئے پاکستان سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے ایم بم کے بعد دنیا میں موجود خطرناک بم کے افغانستان پر استعمال کی مثال کا ذکر بھی کیا۔ تزویراتی سطح پر کشمیر اور ایٹمی پروگرام پاکستان کیلئے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ایشوز ہیں۔ پاکستان پہلے دن سے مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے، لیکن جو کردار بھارت کا کشمیر میں ہے، وہی اسرائیل اور امریکہ کا فلسطین سمیت پوری دنیا میں ہے، یعنی جنگوں کی آگ بھڑکائے رکھنا۔

امریکی کا اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان عالمی سیاست کا اہم کھلاڑی ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ ملکوں کے معاملات میں قوانین نہیں طاقت کردار ادا کرتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں معاشی حیثیت، فوجی قابلیت، علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں صلاحیت کے علاوہ عالمی برادری میں اثر و رسوخ کو ملا کر طاقت کا نام دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس فوجی قابلیت اور اس میں ایٹمی طاقت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ طویل عرصے کی روایتی جنگ کے لئے آپ کو روایتی ہتھیاروں میں خود کفالت کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفالت اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال کیا ہے، یہ سمجھانے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہرگز نہیں۔ رائج بین الاقوامی سیاست میں موقع پرستی کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی، امریکہ کو اسکے استعمال میں خصوصی مہارت اور ید طولیٰ حاصل ہے۔ پہلے افغانستان کے ایشو کو اپنے مفاد کیلئے بھڑکایا گیا اور اس کی آک نے صرف پاکستان کو لپیٹ میں لیا۔ اب مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی آڑ میں پاکستان کو مزید رگیدے جانے کا خدشہ ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کیساتھ ہی نیوکلیئر اثاثوں کے متعلق بھی بات چھیڑی گئی ہے۔

یہ اسوقت ہو رہا ہے جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے پہل نہ کرنے کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے، جس سے ثابت ہوگیا کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ مودی سرکار کی اس ایٹمی جنگ کی دھمکی سے کوئی شک باقی نہیں رہا کہ بھارت عالمی امن کیلیے بڑا خطرہ ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے جوہری دھماکوں کی جگہ پوکھران پر کھڑے ہو کر خطے کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کا اشتعال انگیز بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ ایٹم بم کی نو فرسٹ یوز پالیسی پر عمل کا انحصار مستقبل کے حالات پر ہے۔ اپنے ٹویٹس کے ذریعے بھارتی وزیر دفاع نے واضح طور پر کشمیر سے متعلق پیدا شدہ صورت حال پر ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے، جس سے کشمیر کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہونا ثابت ہوگیا ہے، نیوکلیئر پالیسی میں تبدیلی کے عندیہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت عالمی امن کیلیے ایک خطرہ ہے اور بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کا یہ اشتعال انگیز بیان خطے کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے، کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ سے پہلے بھارت نے اقوامِ عالم کو دھمکی دی ہے۔؟

راج ناتھ کا بیان ایک خطرناک انتہاء پسند سوچ اور ایٹمی جنگ کے خطرے کی طرف اشارہ ہے، یہ وہی سوچ ہے، جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 1974ء میں بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کیا، جو Smiling Budha کے نام سے جانا جاتا ہے، بھارت کے اس عمل نے جنوبی ایشیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا۔ بھارت کو اس عمل سے باز رکھنے کیلیے ہی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا 1974ء میں قیام عمل میں آیا تھا، تاہم بھارت نے اس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور 11 سے 13 مئی 1998ء میں ایک مرتبہ پھر پوکھران میں 5 ایٹمی دھماکے کرکے ایک بار پھر عالمی قوانین کا منہ چڑایا، جب اقوام ِ عالم NPT اور CTBT کے معاہدوں کیلیے زور دے رہی تھیں۔ اب کشمیر کی صورت حال میں مستقبل کے حالات کو بنیاد بنا کر بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے نہ صرف ایٹمی جنگ کی ننگی دھمکی دے کر غیر ذمے دار ایٹمی طاقت ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ اپنے گھمنڈ میں یہ ثبوت بھی دے دیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دنیا کا امن ایٹمی جنگ سے تہہ و بالا کرسکتا ہے۔

ایسے میں امریکہ کے جیو پولیٹیکل انٹیلی جنس پلیٹ فارم اسٹارٹ فور کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر تنازع کو داخلی امور یا باہمی مسئلے کے برعکس عالمی امن اور سلامتی کا مسئلہ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 16 اگست کو یہ تنازع جوہری سطح پر آن پہنچا تھا، جب بھارتی وزیر دفاع رجناتھ سنگھ نے بھارت کی پہلے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کے نظریئے سے انحراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں جو بھی ہوگا، وہ صورتحال کے حوالے سے آگاہی فراہم کرے گا اور صورتحال پُرامید نہیں ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نیو یارک ٹائمز کے نمائندے کی جانب سے سے کیے گئے مقبوضہ وادی کے حالیہ دورے میں ان کی ملاقات ایک چرواہے سے ہوئی تھی، جب ان کی گاڑی اس کے قریب پہنچی تو چرواہے نے فوری ان کی گاڑی کی کھڑکی کی جانب بڑھا اور کہا کہ ہم ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ دہائیوں قبل کشمیری عوام سے ان کی رائے جاننے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو کبھی پورا نہیں ہوا، کیا ان سے کبھی سوال کیا جائے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اور پاکستانی فوج دونوں کے پاس اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں، جو دونوں جانب کے کمانڈرز میدان جنگ میں استعمال کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا کی جانب سے 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے گئے جوہری حملے کے بعد یہ پہلی مرتبہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پاکستانی حکومتوں نے کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کی تھی، تاہم موجودہ پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر سابقہ حکومتوں کی روایت پر برقرار نہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رواں سال فروری میں پاک فوج نے بھارتی طیارہ مار گرایا تھا، تاہم یکم مارچ کو اس کے پائلٹ ابھی نندن ورتمان کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا، لیکن نریندر مودی نے اسلام آباد کے جذبہ خیر سگالی کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی ان کی حکومت کشمیر تنازع پر بات چیت کو تیار ہے۔ اب عالمی طاقتوں پر انتہائی اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کی صورت حال کو آسان نہ لے اور تمام فریقوں کے لیے قابل قبول اور اطمینان بخش حل تلاش کرے۔
خبر کا کوڈ : 812589
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش