1
0
Tuesday 24 Sep 2019 12:06

یہاں قتل ہوتے ہیں لیکن قاتل نہیں

یہاں قتل ہوتے ہیں لیکن قاتل نہیں
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، اس کے بعد آپ جو کہیں گے وہی ہوگا۔ بڑے بڑے بادشاہوں، آمروں اور ظالموں نے یہی حربہ آزمایا ہے۔ انہوں نے عوام کو یہ یقین دلایا کہ بادشاہ بنتے نہیں بلکہ خدا بناتا ہے، بادشاہ کو چونکہ خدا بناتا ہے، اس لئے بادشاہ جو کچھ کرتا ہے، وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی بادشاہ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، پس جو اللہ کے خلاف کھڑا ہو جائے، وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ یہ ہے قتل کرنے، غصب کرنے اور دوسروں پر ظلم کرنے کا وہ فارمولا جس کے ہم مسلمان صدیوں سے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں فراڈ، جبر، دھونس اور دھاندلی جو کچھ بھی کرو، سارا ملبہ نعوذ باللہ خدا کے حساب میں ڈال دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں۔

آج یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے، ساری امت مسلمہ خاموش ہے، چونکہ بادشاہ سلامت کروا رہے ہیں اور بادشاہی تو خدا عطا کرتا ہے۔۔۔ اسلامی ممالک کی صرف بین الاقوامی صورتحال ہی ایسی نہیں، بلکہ اندرونی حالت بھی اسی طرح کی ہے۔ گذشتہ روز سکردو، سے راولپنڈی جانے والی بس کے حادثے میں 27 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوئے۔ اس حادثے کا ذمہ دار کوئی بھی نہیں، چونکہ ہمارے ہاں عوام کو یہ سکھا دیا گیا ہے کہ حادثات اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتے ہیں، لہذا کسی بھی حادثے کی ذمہ داری متعلقہ سرکاری محکمے پر ڈالنے کا تصور بھی محال ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، ایک سروے کے مطابق صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 700 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں اور اتنے حادثات کے باوجود کوئی انڈیپنڈنٹ سیفٹی بورڈ نہیں، جو حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کرے۔

ان حادثات کی اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: دن رات مسلسل ڈرائیونگ، تیزی رفتاری، سڑکوں کی تعمیر میں ناقص میٹریل، سڑکوں کی تعمیر نہ ہونا، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کے غلط نقشے، گاڑی میں فنّی خرابی، ڈرائیور کا نشہ کرنا، ڈرائیور حضرات کا فلم دیکھنے میں مشغول ہو جانا، سڑکوں کے گرد ناجائز تجاوزات، جعلی لائسنس، اوورلوڈنگ، ڈرائیونگ سے پہلے گاڑی کی فٹنس کا چیک نہ ہونا، مسافر بسوں میں ہنگامی دروازوں، سیٹ بیلٹ، آگ بجھانے والے آلات اور فرسٹ ایڈ باکس کا نہ ہونا، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، مسافر بسوں کو مال بردار گاڑی کے طور پر استعمال کرنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہونا اور مدت گزرنے کے بعد بھی ٹائروں کا استعمال ترک نہ کرنا ہے۔

اسی طرح گاڑیوں میں گیس سلنڈر پھٹنے سے بھی بڑے پیمانے پر لوگ ہلاک اور معذور ہو رہے ہیں۔ ہمارےحکمرانوں نے عوام کو ظلم سہنے، لاشیں اٹھانے، آنسو بہانے اور معذور ہوکر زندگی گزارنے کا عادی بنا دیا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں حادثات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے سارا الزام بیچاری بریک پر اور یا پھر مرنے والے ڈرائیور کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے ہاں کوئی ادارہ ہی نہیں، جو پبلک ٹرانسپورٹ کی دیکھ بھال کرے۔ بس مختلف ادارے اس نام پر بجٹ اور تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ آپ پبلک ہیلتھ سروسز کی طرف آئیں تو وہاں بھی یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی جیسے برائے نام اداروں کے سفارشی بھرتی ہونے والے اہلکار صرف تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ غیر معیاری اور جعلی دوائیوں کی بھرمار کے باعث ہر سال سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں دوائیوں اور غذا کی قلت کے باعث روزانہ 1184 بچے مر جاتے ہیں اور 45 فیصد بچوں کی اسی وجہ سے نشوونما ادھوری ہوتی ہے اور وہ وقت سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان کا ہر شہری اپنی صحت اور علاج معالجے کیلئے اپنی آمدن کا اوسطاً 37 فیصد ادویات کی خریداری اور ڈاکٹر حضرات کی فیسوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جعلی اور جان لیوا غیر معیاری ادویات اس کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت اور دوائی کا نہ ہونا معمول کی بات ہے۔ حالانکہ سرکاری خزانے سے ہسپتالوں کے لئے باقاعدہ دوائیاں خریدی جاتی ہیں اور پھر یہی دوائیاں میڈیکل سٹوروں پر بکتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہیں، نیز دوائیاں خریدتے ہوئے بھی مخصوص میڈیکل کمپنیوں کو ہی نوازا جاتا ہے اور دوائیاں لکھتے ہوئے بھی ڈاکٹر حضرات اور میڈیکل کمپنیوں کے درمیان ہمدردی اور بھائی چارے کی فضا قائم رہتی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمرجنسی میں ڈاکٹر اور دوائی دونوں ہی ناپید ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں لاڑکانہ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے 10 سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا، بچے کے والد صفدر ابڑو کے مطابق بچے کو شکارپور، سلطان کوٹ اور دیگر مقامات پر لے کر جایا گیا، لیکن کہیں بھی ویکسین نہیں تھی۔ ایسے واقعات ہر روز پیش آتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں کون سا ادارہ ہے، جو ان فضول مسائل کو حل کرنے کی سعی کرے۔ ویسے بھی آپ جائیں اور بچے کے والد سے پوچھیں کہ بچے کی موت کا ذمہ دار کون ہے!؟ تو والد یہی جواب دے گا کہ کوئی نہیں، بس یہ اللہ کی مرضی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ گذشتہ دنوں مجھے ایک بینک اکاونٹ کھلوانا پڑا۔ پہلے دن ہی ایک نامی گرامی بینک کی معروف برانچ اور مشہور شہر میں ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر صرف بابو صاحب کا انتظار کرنا پڑا کہ وہ آکر اکاونٹ کھولیں۔ اس کے بعد چیک بک لینے کے لئے میں تین مہینوں میں چار مرتبہ اس بینک میں گیا، لیکن وہ بابو صاحب ہر مرتبہ یا ساتھ والے کمرے میں ہوتے تھے اور یا پھر کھانا کھانے گئے ہوتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ میرے پاس بھی ہر دفعہ ڈیڑھ گھنٹہ نہیں ہوتا تھا، لہذا پندرہ بیس منٹ انتظار کرنے کے بعد خالی ہاتھ واپس چلا آتا تھا۔ اب اگر کوئی مجھ سے بھی پوچھتا ہے کہ آپ نے وہ چیک بک اٹھائی تھی تو میں بھی یہی جواب دیتا ہوں کہ بس جی اللہ کی مرضی نہیں تھی۔

جس معاشرے میں ہر ظلم، ہر جرم اور ہر بدی کو نعوذ باللہ خدا کی مرضی کہہ کر ٹال دیا جاتا ہو، اس معاشرے میں حادثات کے محرکین کا تعین نہیں ہوسکتا، ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا اور سرکاری خزانے سے ٹی اے، ڈی اے اور مراعات وصول کرنے والوں کا محاسبہ نہیں ہوسکتا۔ حالات بدلنے کیلئے اب عوام کو اپنے مقتولین کے سرہانے صرف آنسو بہانے کے بجائے قاتلوں کو قاتل کہنا ہوگا۔ اس معاشرے کو اب ماننا پڑے گا کہ ہر مقتول کا قاتل ہوتا ہے اور ہر قاتل کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 818116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
حق مانگنے سے کب ملتا ہے حق چھین لو ان ایوانوں سے
انصاف کی آس لگاتے ہو ان آدم خور انسانوں سے
ہماری پیشکش