1
Wednesday 25 Sep 2019 22:25

حزب اللہ لبنان کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ

حزب اللہ لبنان کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ
تحریر: علی احمدی

امریکی حکام نے ایران کے خلاف شدید اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان پر اقتصادی دباو بڑھانے کیلئے سفارتی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ کچھ دنوں سے امریکی حکام کی لبنان آمد و رفت میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں وہ لبنانی حکومت پر حزب اللہ کی اقتصادی سرگرمیاں ختم کرنے کیلئے دباو بڑھا رہے ہیں۔ اتوار 22 ستمبر کے دن لبنان میں امریکی سفیر نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق امریکی وزیر خزانہ کے سیکرٹری مارشل بیلینگزلی دو روزہ دورے پر لبنان آئیں گے۔ ان کے دورے کا اصل مقصد لبنان کے اقتصادی مراکز سے حزب اللہ لبنان کے تعلقات منقطع کرنا ہے۔ حزب اللہ لبنان پر اقتصادی دباو امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی دباو پر مبنی پالیسی کا حصہ ہے۔ وائٹ ہاوس نے امریکہ سے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو جانے کے بعد ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباو" والی پالیسی کا آغاز کر دیا تھا جو آج تک جاری ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے خطے میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے جن میں حزب اللہ لبنان بھی شامل ہے۔ مارشل بیلینگزلی ان اقتصادی پابندیوں کو لاگو کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں انتہائی شدید ہیں اور اس میں تقریبا ایران کی آمدن کے تمام ذرائع کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن لبنان کے خلاف اس سطح پر پابندیاں عائد کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ لبنان حکومت امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے ہوئے ہے اور حکومت میں حزب اللہ لبنان کا حصہ بہت کم ہے۔ لہذا امریکی حکام لبنان کے بینکوں اور دیگر اقتصادی مراکز سے حزب اللہ لبنان کے تعلقات منقطع کرنے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ چونکہ حزب اللہ لبنان موجودہ حکومت میں شامل ہے لہذا امریکہ کو حزب اللہ لبنان پر اقتصادی دباو بڑھانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ لبنان حکومت کے تعاون سے حزب اللہ لبنان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
 
مارشل بیلینگزلی نے لبنان دورے کے دوران لبنان کے وزیراعظم سعد حریری اور اسٹیٹ بینک کے سربراہ ریاض سلامہ سمیت اعلی سطحی عہدیداروں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ ان ملاقاتوں میں موجود ایک باخبر لبنانی ذریعے نے بتایا کہ بیلینگزلی نے انتہائی واضح انداز میں کہا ہے کہ ایران، ایران کے اسٹیٹ بینک اور خطے میں ایران کی اتحادی قوتوں کے خلاف اقتصادی پابندیاں امریکہ کی طے شدہ اور تبدیل نہ ہونے والی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اگست کے آخر میں حزب اللہ لبنان سے تمام اقتصادی تعلقات ختم کرنے کیلئے لبنان کے اسٹیٹ بینک پر امریکی دباو اس وقت نئے مرحلے میں داخل ہو گیا تھا جب امریکہ نے جمال ٹرسٹ بینک پر حزب اللہ سے تعلقات کی بنیاد پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس بینک کی ملک کے اندر اور باہر 25 شاخیں تھیں اور وہ امریکی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں دیوالیہ ہو گیا تھا۔ اسی وقت مارشل بیلینگزلی نے لبنان کے اخبار النہار میں ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ دعوی کیا تھا کہ جمال ٹرسٹ بینک بہت عرصے سے حزب اللہ لبنان کے ساتھ مالی معاونت اور تعلقات کا حامل تھا۔
 
اس سے پہلے مارشل بیلینگزلی جنوری 2018ء میں لبنان آئے تھے اور انہوں نے حزب اللہ لبنان کو "کینسر" سے تعبیر کیا تھا۔ اس بار بھی ان کا موقف بہت سخت تھا اور انہوں نے لبنان کے تمام مالی مراکز پر حزب اللہ لبنان سے تعلقات ختم کر دینے پر زور دیا۔ بیلینگزلی کے علاوہ دیگر امریکی حکام بھی لبنان کا دورہ کر چکے ہیں اور ان تمام سفارتی سرگرمیوں کا مشترکہ مقصد حزب اللہ لبنان کو کمزور کرنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے مشیر ڈیوڈ ہیل جنوری میں لبنان آئے تھے۔ اس کے بعد مارچ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بیروت کا دورہ کیا۔ مئی اور جولائی کے درمیان امریکی وزیر خارجہ کے اسسٹنٹ ڈیوڈ سیٹرفیلڈ پانچ سے زیادہ مرتبہ لبنان آئے۔ اسی طرح سیٹرفیلڈ کے نائب ڈیوڈ شینکر نے بھی ستمبر میں لبنان کا دورہ کیا۔ جنوری 2018ء کے بعد مارشل بیلینگزلی کا یہ دوسرا دورہ لبنان ہے۔ ان تمام امریکی عہدیداروں کی لبنان آمد کا مقصد حزب اللہ لبنان کے خلاف فعالیت انجام دینا تھا۔ لبنانی اخبار الاخبار کے مطابق مائیک پمپئو اور ہیل کے دورے کا اصل مقصد حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کا اندازہ لگانا تھا۔ سیٹرفیلڈ اور شینکر کے دوروں کا مقصد لبنان اور اسرائیل کی سرحد کا جائزہ لینا تھا۔ جبکہ بیلینگزلی کا حالیہ دورہ حزب اللہ لبنان کی اقتصادی سرگرمیوں پر مرکوز تھا۔
 
خبر کا کوڈ : 818388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش