13
Saturday 28 Sep 2019 01:39

اقوام متحدہ میں عمران خان کا دبنگ خطاب، مگر۔۔۔

اقوام متحدہ میں عمران خان کا دبنگ خطاب، مگر۔۔۔
تحریر : محمد سلمان مہدی
 
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جمعہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ بلاشبہ کشمیر ایشو کے تناظر میں ان کا یہ خطاب دبنگ تھا۔ مگر ان کے موجودہ دورہ نیویارک کو مجموعی طور پر کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کشمیر تنازعہ کو ایک اور مرتبہ اجاگر کر دینا ایک اچھا عمل ضرور ہوسکتا ہے۔ مگر، غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت سے ملاقاتوں میں یہ شکایت اور احتجاج کافی نہیں۔ حتیٰ کہ جنرل اسمبلی میں اس پر دبنگ گفتگو سے بھی زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔ اس پر مزید اپنی رائے پیش کرنے سے قبل ایک اور محاذ پر بھی وزیراعظم کی سبکی ہوئی ہے۔ نیویارک میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ دنیا کو بہت بڑی خبر سنائی۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے نمایاں طور اسے نشر کیا۔ عمران خان نے کہا پاکستان، ایران، امریکا اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کرے گا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی (حکام) نے انہیں ایران سے ثالثی کا کہا ہے۔
 
چوبیس ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی تردید کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ نہیں یہ بات انہوں نے نہیں کہی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان سے ایسا کہا۔ کیونکہ عمران خان نے سوچا کہ (ایران سے) ملنا ایک اچھا آئیڈیا ہوگا۔  یہ صد ٹرمپ نے عراقی صدر برھم صالح سے ملاقات شروع ہونے سے پہلے صحافیوں سے بات چیت میں کہا۔ انکے انگریزی جملے کچھ یوں تھے۔ But, no, I haven’t spoken. He actually asked me. He thought it would be a good idea to meet. ایسا کسی پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جب نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کی کوششیں کیں۔ تب سعودی وزیر خارجہ نے بحرین میں کسی فورم پر ٹرمپ کے بیان سے ملتا جلتا بیان دیا تھا۔ انہوں نے نواز شریف کی ثالثی کی کوششوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ عمران خان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ نواز دور میں بھی پاکستان کا وزیراعظم علاقائی امن کے لئے کوشاں تھا۔ اب اگلا فریق ہی پاکستان کی مفاہمتی کوششوں سے لاتعلقی ظاہر کر دے تو پاکستان کہاں جائے!؟
 
لیکن اس مرتبہ پاکستان کی عزت رہ گئی۔ وہ کچھ اس طرح کہ امریکا کی جانب سے ایران سے کشیدگی بڑھانے کے مخالفین میں پاکستان تنہا نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکیل کا بھی یہی مشورہ ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے ہیں۔ سبھی ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرے۔ البتہ نیوکلیئر معاہدے میں کئے گئے وعدوں پر عمل سے قبل ایران مذاکرات کرنے سے انکاری ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے کشمیر کا تو عمران خان نے دلیرانہ انداز اختیار کیا۔ ہاؤڈی مودی کے بعد موذی کا جو بھرم تھا، وہ چکنا چور کر دیا۔ منطقی و مدلل خطاب بین الاقوامی برادری کیلئے تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے، بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے روکنا۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینا۔ یہ اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے۔ مودی نسلی انتہاء پسند آر ایس ایس کا تاحیات رکن ہے۔ موذی سرکار کی پالیسیوں سے بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمان ریڈیکلائزڈ ہوسکتے ہیں۔ بھارتی مظالم کی وجہ سے ردعمل آسکتا ہے۔ پلوامہ سے زیادہ شدید ردعمل ممکن ہے۔ بھارت پاکستان پر الزام لگا کر بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
 
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے بھارت کو جیسے کو تیسا جواب دینے سے گریز کیا۔ پاکستان نے بھارتی دراندازی اور سرحدی کشیدگی پر ردعمل کو محدود رکھا۔ پاکستان نے امن کے قیام کے لیے کوششیں کیں۔ آر ایس ایس، ابھیناؤ بھارت جیسی ہندو انتہاء پسند تنظیمیں بھارت میں اقلیتی آبادی پر حملہ آور ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی باتیں مدلل و منطقی تھیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھینس کے آگے بین بجا رہے تھے۔ یہ نام نہاد بین الاقوامی برادری مظلوم کشمیریوں کے حق میں ایک کھوکھلی قرارداد نہیں لاسکی۔ اس اقوام متحدہ نے بھارتی مظالم کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا۔ کھوکھلی مذمتی قراردادوں سے کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا تو ممکن نہیں تھا۔ مگر انہیں یہ پیغام تو مل جاتا کہ کم از کم لفظی ہمدردی کی حد تک سہی، دنیا ان کے ساتھ ہے۔
 
وزیراعظم نے دنیا کو یاد دلایا کہ ایک اعشاریہ تین ارب مسلمان کشمیری مسلمانوں پر مظالم پر مشوش ہیں، مگر ایک اور مرتبہ اس تلخ حقیقت کو بیان کر دیا جائے کہ بعض عرب حکومتوں نے عالم اسلام کا وہ بھرم بھی توڑ دیا۔ ایک اعشاریہ تین ارب انسانوں پر مشتمل امت اسلامی!۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے موذی کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا۔ عالم اسلام کے قلب میں خنجر سے کم نہیں تھا۔ افسوس کہ مکہ و مدینہ کے مقامات مقدسہ کا انتظام ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ مسلماں ہیں، جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود! او آئی سی ہو یا عرب لیگ، امریکا ہو یا یورپی بلاک، مظلوم کشمیریوں کو کہیں سے مدد نہیں ملی۔ عالم اسلام میں سوائے ایران اور ترکی کے کوئی بھی کشمیر ایشو پر ساتھ نہیں۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانا، اصل ہدف ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر بہت اچھی تھی۔ اسلامو فوبیا کے ایشو پر بھی وہ اچھا بولے۔ ہندومت، بدھ مت کے گروہوں سے موازنہ بھی خوب کیا۔ ہولوکاسٹ پر مباحثے کو شجر ممنوعہ قرار دینے والے مغرب کو شان رسالت مآب ﷺ کے تقدس اور احترام کی طرف متوجہ بھی کیا۔ حجاب پر تنقید کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا۔
 
مگر، یہ نام نہاد مغربی بلاک دہرے معیار کا قائل ہے۔ یہ منافقت کر رہا ہے۔ یہ اسلام و مسلمین کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کشمیری، فلسطینی، روھنگیا، یمنی، بحرینی، لبیائی مسلمانوں پر جنگیں مسلط ہیں۔ مگر امریکا اور یورپی بلاک جارحین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان و پاکستان میں دہشت گردی مسلط ہے، مگر دہشت گردی کے پیچھے بھی امریکی بلاک نظر آتا ہے۔ یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ اسی لئے عمران خان کی منطقی و مدلل باتیں سنی ان سنی کر دی جائیں گی۔ پاکستان کے پاس لمحہ موجود میں بلکہ دور دور تک خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایک ہی آپشن بچا ہے۔ پاکستان کے سابق سفارتکار بھی کہہ رہے ہیں۔ پاکستان، چین، روس، ایران اور ترکی پر مشتمل ایک نیا علاقائی اتحاد تشکیل دیا جائے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کے دو مستقل رکن ممالک اور خطے اور عالم اسلام کی دو اہم طاقتیں ترکی اور ایران کے ساتھ پاکستان اتحاد کرے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرسکتا ہے۔ ورنہ کشمیر کے چکر میں خود پاکستان کی سلامتی و بقا داؤ پر نہ لگ جائے۔ مسٹر پرائم منسٹر! پاکستان کو خطاب نہیں، دبنگ خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 818757
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش