0
Monday 30 Sep 2019 12:37

اقوام متحدہ اور مسئلہ کشمیر

اقوام متحدہ اور مسئلہ کشمیر
رپورٹ: جے اے رضوی

اقوام متحدہ، اسکی سلامتی کونسل یا کوئی بھی عالمی ادارہ ہمارا مسئلہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ حل نہیں کرسکتا ہے۔ گذشتہ سات دہائیوں کا تجربہ، مشاہدات، تاریخ کے تناظر میں معاملات اور وابستہ اور غیر وابستہ ممالک کے رویئے اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ کوئی عالمی ادارہ بالخصوص اقوام متحدہ کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کرسکا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ مختلف ملکوں اور معاملات کے حوالوں سے خود اس ادارے نے قراردادیں منظور کر رکھی ہیں، لیکن ان پر عملی جامہ کا فقدان وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہمارے سامنے متعدد مثالیں ہیں۔ فلسطین ان میں سے سرفہرست ہے۔ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے خود اس عالمی ادارے کا ریکارڈ گواہ ہے، اسرائیل کے خلاف متعدد قراردادیں اس کے ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن اسرائیل نے ایک بھی قرارداد کا احترام نہیں کیا بلکہ اس کی توسیع پسندی شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی، خودسری اور متکبرانہ رویہ کی اہم وجہ یہ ہے کہ اسے امریکہ سمیت مغرب اور یورپی ممالک کا مکمل عملی تعاون اور سرپرستی حاصل ہے اور اب سعودی عرب سمیت کچھ عرب و خلیجی ممالک کا تعاون اور اشتراک بھی اسکے ہاتھ آگیا۔

کشمیر کی مثال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس عالمی ادارے کی کشمیر سے متعلق قراردادوں کا بھی وہی حسرتناک حشر ہوا، جو فلسطین کے بارے میں قراردادوں کا ہوا یا ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں جب جب بھی اس ادارے یا سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں کشمیر پر بحث چھیڑتی رہی تو بھارت و پاکستان کے حامی ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف حق تنسیخ (VETO) استعمال کرکے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی سمت میں روڑے اٹکائے اور جانبدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس مسئلے کو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔ شام، لبنان، یمن، عراق، سوڈان جیسے ممالک کے بارے میں بھی اقوام متحدہ قراردادیں پاس کرتی رہی ہے، اس کے فوجی مبصرین ان خطوں میں موجود ہیں، لیکن یہاں بھی معاملہ ناکامی اور بے عملی سے عبارت نظر آرہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ادارہ ایک ناکارہ اڈہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کے چند ایک طاقتور ممالک جن میں امریکہ سر فہرست ہے، اس ادارے کو اپنی لونڈی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بارے میں یہی ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کے اجلاسوں کو پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بے دانت کا ادارہ دنیا کا کوئی مسئلہ، چاہے وہ سیاسی ہو، معاشی ہو، ماحولیاتی ہو یا کسی اور اہم ایشو سے وابستہ مسئلہ ہو، اس کی وساطت سے حل نہیں ہوگا، کیونکہ خود اس کے رکن ممالک اس کو ناکام بنانے میں پیش پیش ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رکن ممالک سیاسی نوعیت کے معاملات کو غیر ترجیحی فہرست میں رکھ کر اپنے تجارتی مفادات اور ان مفادات کے حوالے سے عالمی بازاروں کا تحفظ یقینی بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں، جبکہ چند طاقتور ممالک اپنے ہتھیاروں اور گولی بارود کے بازاروں اور منڈیوں کا تحفظ یقینی بنانے کو ہی فوقیت دے رہے ہیں، آخر یہ مفادات کی جنگ ہی تو ہے، کون پیچھے رہنا چاہے گا۔ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بھی اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ستر سالوں سے تعینات ہیں، وہ کیا اور کونسا کردار ادا کررہے ہیں یہ آج تک کسی پر واضح نہیں ہوسکا ہے۔

دونوں ممالک ایک دوسرے پر مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان فوجی مبصرین کے بارے میں بتایا جاتا رہا ہے کہ انہیں جنگ بندی کی نگرانی اور اسکو یقینی بنانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے، لیکن گزرے ستر برسوں کے دوران یہ فوجی مبصرین دونوں طرف اپنی موجودگی اور حاصل سہولیات کے سوا اور کوئی کردار ادا کرتے نہیں دیکھے گئے۔ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار روزانہ گولہ باری ہو رہی ہے۔ سرحدی دیہاتوں کی آبادی کو جانی و مالی نقصانات کا مسلسل سامنا ہے، املاک اور اثاثوں کی تباہی الگ سے ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین مذکورہ آبادی اور انکی املاک کے تحفظ کے حوالے سے معمولی سا کردار بھی ادا نہیں کر رہے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر کے حوالے سے ناکامی کی ایک اور تصویر ہے۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاسوں میں ہر سال بھارت و پاکستان کے سربراہان مملکت یا انکے نمائندے شعلہ بیانی سے کام لیکر ایکدوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور اقوام متحدہ اور اسکے رکن ممالک کی توجہ آر پار کے تصفیہ طلب سیاسی و غیر سیاسی معاملات کی طرف مبذول تو کرتے ہیں، لیکن کیا رکن ممالک نے ردعمل کے طور پر ہی سہی ان میں سے کسی ملک کی پذیرائی کی یا ان سے معاملہ آپس میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں اپنا کوئی چھوٹا سا کردار ادا کیا۔
خبر کا کوڈ : 819176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش