0
Wednesday 30 Oct 2019 14:24

کشمیر،انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کی تشویش

کشمیر،انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کی تشویش
تحریر: طاہر یاسین طاہر

یہ معاملہ صرف 5 اگست 2019ء کا نہیں، بلکہ سات عشروں کا ہے۔ یہی مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان  نزاع کا معاملہ بنا ہوا ہے، اور اسی مسئلے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین چار جنگیں اور لائن آف کنٹرول پر سینکڑوں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ لیکن دنیا کے سیاسی "عقدہ کشا" اس مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے نزدیک ایک دو بیان ہی اس معاملے کو حل کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ چیزیں وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یکسانیت فرد سے لے کر اقوام تک کو اکتاہٹ کا شکار کر دیتی ہے، جس سے نفسیاتی و سماجی ہیجان جنم لیتا ہے۔ کشمیر کا معاملہ، اس کی نوعیت اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی تاریخ، درد ناک داستان ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس حوالے سے موجود ہیں کہ مگر بھارت نے کبھی بھی ان قراردادوں کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا، بلکہ جب بھی عالمی سیاسی "نقشہ نویسوں" نے خطے کے سیاسی نقشہ میں تبدیلی چاہی افغانستان و مقبوضہ کشمیر کا محاذ گرم ہو گیا۔ سیاسی کروٹوں سے عالمی سطح پر پڑنے والی سلوٹوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں مسئلہ کشمیر کے حل کو مرکزی حیثیت کا بیانیہ بنا کر سیاسی جماعتیں، انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔

بالخصوص پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتیں اور ہندوو ازم کی پرچارک جماعتیں اس حوالے سے زیادہ سرگرمی دکھاتی ہیں۔ اسی طرح امریکی انتخابات گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے دہشت گردی کے خاتمے اور اسامہ بن لادن، القاعدہ، ابو بکر البغدادی اور اسی نوع کے دیگر عالمی دہشت گردوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ لڑے جاتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے نظریں چرا کر کاغذ تو سیاہ کیا جا سکتا ہے، مگر درست تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں یاد ہے اوبامہ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران میں کہا تھا کہ اگر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کے مرکز خانہ کعبہ پر بھی حملہ کرنا پڑا تو کریں گے۔ پھر اسی اوبامہ نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے حوالے سے نئے بیانیے ترتیب دیے اور دو مرتبہ امریکی صدارت کا مزا چکھا۔ ٹرمپ نے بھی نسلی و قومی تعصب کو ہوا دے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ طاقتور اپنے لیے خود راستہ بناتے ہیں۔ اقوام متحدہ کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں فیصلہ ہو، بلکہ یہاں قراردایں پیش ہوتی ہیں، پاس ہوتی ہیں، یا مسترد کر دی جاتی ہیں۔ بیانات جاری ہوتے ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ اپنے نام سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ادارہ تمام اقوام عالم کا نمائندہ ادارہ ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔

اب عام فہم آدمی جو روزانہ چند گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے یا اخبارات پڑھتا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں یا بیانات میں امریکی و یورپین مفادات کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ امریکی مفادات اصل میں اسرائیلی مفادات ہی ہیں۔ یہ امر واقعی ہے کہ اگر دنیا کے فیصلہ ساز ممالک اور ادارے چاہیں تو تین ماہ میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل ہو سکتا ہے، یمن پر سعودی اتحاد کی بمباری بند ہو سکتی ہے، شام میں داعش کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ لیکن عالمی طاقت وروں کے مفادات اس کے برعکس ہیں۔ ساری بربادی اور گولہ باری مسلمانوں پر ہی کیوں برستی ہے؟۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کی، فلسفہ و سائنس اور منطق و سوشیالوجی جیسے جدید علوم سے دوری کو فرضِ اول سمجھا۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے سبق اخذ کرنے کے بجائے "تاریخ کو لطف اندوزی" کے لیے پڑھا، اور نتیجہ آج سامنے ہے۔
دنیا کے با ضمیر اور عدل پسند یہ مانتے ہیں کہ فلسطین، بوسنیا اور کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں، لیکن دنیا کے پاس اس کا حل نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو ملا کر دنیا جس نئے نقشے کو اپنے بغل میں دبائے پھرتی ہے، اس سے خطے میں نئے اسرائیل کی پیداوار کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

اتنا کہہ دینا کافی نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بلکہ اس حوالے سے اقوام متحدہ اپنا جارحانہ کردار ادا کرے۔ سلامتی کونسل کے اراکین ممالک امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کو قائل کریں کہ وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، بہ صورت دگر عالمی برادری بھارت سے سماجی بائیکاٹ کی دھمکی دے۔ ایسا مگر ہم سوچ تو سکتے ہیں زمینی حقائق ہماری اس خواہش کو سپورٹ نہیں کرتے۔ جس طرح عرب ممالک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو استقبالیہ دیتے نظر آ رہے ہیں، یہ از خود کشمیریوں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی و ندامت کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں تمام حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے ترجمان روپرٹ کولویل نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں عوام کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق سے محروم ہونے پر شدید تشویش ہے اور ہم بھارت کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ معمول کی صورت حال کو بحال کرے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل و حرکت روکنے، انہیں پرامن انداز میں اجتماع کے حق میں رکاوٹیں ڈالنے، صحت، تعلیم اور مذہبی فرائض کی آزادانہ ادائیگی کو روکنے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔ روپرٹ کولویل نے مزید کہا کہ  احتجاج کے دوران پیلٹ گنز، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سمیت فورسز کے جارحانہ استعمال کے حوالے سے کئی الزامات ہیں جبکہ مسلح گروہ کی جانب سے بھی اس دوران حملوں میں 6 افراد کو نشانہ بنانے اور درجنوں کو زخمی کرنے کی رپورٹس ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کا بیان خوش آئند ہے، اس سے عالمی برادری کے دردمند انسانوں پر اثر پڑے گا، لیکن کیا ایک بیان سے بھارت اپنے مفادات کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے کرفیو اٹھا لے گا؟۔ کیا ایک بیان سے اسرائیلی مفادات جو امریکی و دیگر "مقدس ممالک" کے مفادات کے ساتھ یکجا و یکجان ہیں، بھارت انھیں نظر انداز کرتے ہوئے قوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی بات مان لے گا؟۔ نہیں بالکل نہیں۔ بھارت امریکی و اسرائیلی مدد سے خطے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے  کے خواب کی تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ بھارت کا یہی رویہ خطے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے امن کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔ کرفیو ہٹتے ہی مقبوضہ کشمیر کے مظلومین شدید احتجاج کریں گے اور اس کا لازمی نتیجہ بھارتی فورسز کی جانب سے مسلح ردعمل ہو گا۔ پاکستان ہر ممکن چاہتا ہے کہ بھارتی جارحیت کا معاملہ میز پر سیاسی انداز میں ہو، جبکہ بھارت کے پشتیبان دوہری چال چلتے ہوئے پاکستان کو بھارت اور افغانستان کے درمیان مستقل مگر غیر اعلانیہ جنگ میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے عدل پسند انسانوں کو اس خطرے کو محسوس کرنا چاہیے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مشرقِ وسطیٰ کے لیے چالیں، اور پاک بھارت کے حوالے سے منصوبہ سازیاںنہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو خدا نخواستہ ناقابلِ بیان تباہی سے دوچار کر سکتی ہیں۔ مظلومین کی حمایت کے لیے دنیا بھر کے باضمیر اور عدل پسند انسانوں کو آگے آنا چاہیے اور اپنی اپنی حکومتوں پر اس حوالے سے دبائو ڈالنا چاہیے۔ دنیا کی رنگینیاں امن سے ہی مشروط ہیں۔
خبر کا کوڈ : 824682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش