0
Thursday 31 Oct 2019 23:41

ڈی ای او کوہستان کا خون رائیگاں نہیں گیا

ڈی ای او کوہستان کا خون رائیگاں نہیں گیا
رپورٹ: ایس علی حیدر

ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کولئی پالس میں تعینات ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نواب علی کے قتل کا ڈراپ سین ہوا ہے جس میں پی کے 27 کولئی پالس کوہستان سے مسلم لیگ (ق) کے رکن صوبائی اسمبلی عبید الرحمٰن سمیت 10 افراد ملوث پائے گئے۔ 14 اکتوبر 2019ء کو قتل ہونے والے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نواب علی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں 9 ملزمان گرفتار ہوئے ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کے رکن عبید الرحمٰن روپوش ہیں، ان کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں لائی گئی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نواب علی کے قتل میں ملوث ملزمان میں سے سینئر کلرک بادل خان، ایس ڈی او محمد اقبال، جونیئر کلرک پسند خان، ہیڈماسٹر فخرالدین، دوست محمد اور ذاکر وغیرہ شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر زیب الله خان اور تفتیشی ٹیم کے سربراہ عارف جاوید، ڈی پی او کوہستان افتخار خان، محمد ارشد اور ایس پی مختار خان کی انتھک محنت اور کوششوں سے ملزمان کی شناخت اور گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

مقامی رکن صوبائی اسمبلی اور قتل میں ملوث مفتی عبید الرحمٰن ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نواب علی سے زبردستی بھرتیاں کروانا چاہتے ہیں، انکار پر انہیں قتل کیا گیا۔ غیرقانونی بھرتیاں نہ کرنے پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو قتل کرنے کی اتنی بڑی سزا دینا افسوسناک ہے۔ مفتی عبید الرحمٰن ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ ڈی ای او نواب علی کا قتل ظلم اور بربریت ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مقتول کے ماتحت عملے ایس ڈی او اور سینئر کلرک کے ہاتھ بھی نواب علی کے خون سے رنگے ہیں۔ 14 اکتوبر کو نواب علی کو قتل کیا گیا جبکہ 21 اکتوبر 2019ء کو ملزمان کی گرفتاری عمل میں لانا بہت بڑی کامیابی ہے۔ مقتول کے بھائی محبت علی نے رکن صوبائی اسمبلی مفتی عبید الرحمٰن سمیت 10 ملزمان پر دعویداری کی ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کولئی پالس کوہستان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث رکن اسمبلی مفتی عبید الرحمٰن 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں پی کے 27 کولئی پالس کوہستان سے ایم پی اے منتب ہوئے۔

وہ رکن اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوقاف، مذہبی امور و اور اقلیتی امور کے چیئرمین اور قائمہ کمیٹی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ممبر ہیں۔ مفتی عبید الرحمٰن 3 مئی 1974ء کو تاج ملوک کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے 13 اگست 2018ء کو حلف لیا تھا، وہ پالس شلکان آباد کوٹہ کوٹ تحصیل پالس کے رہائشی ہیں۔ وہاں کے ہر رکن اسمبلی اور وزیر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے حلقے کے لوگ اور سپورٹرز کی بھرتیاں ہوں، یہ ان کا قانونی اور آئینی حق نہیں۔ میرٹ پر سرکاری بھرتیاں ہوتی رہتی ہیں، تاہم کلاس فور کی بھرتیوں میں مقامی ایم پی اے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نواب علی کے قاتلوں میں مفتی عبید الرحمٰن کے علاوہ دیگر افراد کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے رکن کو بھی گرفتار کیا جائے۔ تمام قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینا اور دلوانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

قتل میں ملوث ظالموں نے صرف نواب علی کی زندگی کا چراغ گل کیا، بلکہ ان کے قتل سے ان کا پورا خاندان اُجڑ گیا۔ ان کے بچوں کا مستقبل تاریک کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی شہادت اور ان کا خون رائیگاں نہیں گیا، وہ بے گناہ تھے اس لئے ملزمان کی شناخت اور گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ کولئی پالس کوہستان پسماندہ ضلع ہے، وہاں سرکاری افسران ڈیوٹی سے کتراتے ہیں، تاہم نواب علی وہ آفیسر تھے جنہوں نے مشکلات برداشت کیں اور علم کی روشنی پھیلائی۔
خبر کا کوڈ : 824972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش