0
Friday 1 Nov 2019 00:16

ٹرین حادثات، حکومت کب ذمہ داری قبول کریگی۔؟

ٹرین حادثات، حکومت کب ذمہ داری قبول کریگی۔؟
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاکستان میں ریل گاڑی کا سفر قدرے سستا تصور کیا جاتا ہے، اور اس سے زیادہ تر مڈل، لوئر مڈل اور غریب طبقہ مستفید ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں اس سفر کو پیسے کی بچت سمیت سڑک کے سفر سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم آج پاکستان میں ریل گاڑی کا سفر سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہونے لگا ہے۔ ریل گاڑیوں کے حادثات گذشتہ ڈیرہ سال کے دوران اس تیزی سے بڑھے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کبھی ٹرین پٹڑیوں سے اتر جاتی ہیں، کبھی پھاٹک کھلے رہ جاتے ہیں، کبھی ٹرینوں میں آگ لگ جاتی ہے، کبھی بریک فیل ہوجاتی ہے، کبھی ڈرائیور کو نیند آجاتی ہے، کبھی پٹڑی اکھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر کبھی دھماکہ کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سستا اور محفوظ تصور کئے جانے والا ٹرین کا سفر اس وقت پاکستان میں شدید سیکورٹی رسک بن چکا ہے۔ اسی قسم کا اندوہناک حادثہ آج کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام نامی ٹرین کو ضلع رحیم یار خان کے علاقہ لیاقت پور میں پیش آیا، جس میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 74 زندہ انسان جل کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ اس کے علاوہ درجنوں مسافر زخمی ہیں۔
 
میڈیا رپورٹس کے مطابق آج صبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس کی تین بوگیوں میں اچناک آگ لگ گئی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے مطابق حادثہ سلنڈر اور چولہے پھٹنے کی وجہ سے ہوا اور حادثے میں ٹرین کی تین بوگیاں مکمل طور پر جل گئی ہیں۔ ٹرین کی دو بوگیاں تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والی امیر حسین کے نام سے بک کروائی گئیں تھیں، جس میں حیدرآباد سے مسافر سوار ہوئے تھے۔ تبلیغی جماعت کے افراد نے ناشتہ بنانے کیلئے چولہا جلایا تو اس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی، جس نے یک دم باقی دو بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی میتیں اور زخمی افراد کو جنوبی پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے، جہاں زخمیوں کا علاج جاری ہے۔ حادثے کے فوراً بعد امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں جس میں پاک فوج کے جوانوں نے بھی حصہ لیا۔ حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق سندھ کے شہروں میرپور خاص، حیدرآباد اور نوابشاہ سے بتایا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے نے حادثے کے فوراً بعد ملتان کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی۔ انہوں نے اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے 15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے فی کس پانچ لاکھ امدادی معاوضے کا اعلان بھی کیا۔

وفاقی وزیر ریلوے کی جانب سے حادثے کی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے اسے سکیورٹی کی کوتاہی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر اس سانحے کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں گی جس کی رپورٹ 15 دنوں میں آئی گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف قانون کی مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ جبکہ اس حادثے کے فوراً بعد پاکستان ریلوے کی جانب سے ٹرین کے سفر کے بارے میں مسافروں کے لیے حفاظتی ہدایات نامہ جاری کیا گیا۔ ریسکیو عملے کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی میتیں جل جانے کے سبب ناقابل شناخت ہیں، جن کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ ہونے کے بعد ہی انہیں لواحقین کے حوالے کیا جائے گا۔ حکومتی رپورٹس کے مطابق یہ سانحہ تبلیغی جماعت کے اراکین کے پاس موجود سلنڈر کیوجہ سے ہوا، جبکہ ایک نجی ٹی وی چینل پر عینی شاہد مسافر نے بتایا کہ ٹرین میں آگ گیس سلنڈر نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ کیوجہ سے لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ رات کو تاروں کے جلنے کی بو آرہی تھی، جس پر ہم نے ٹرین انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا، تاہم انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
 
آج سے لگ بھگ چار ماہ قبل بڑھتے ہوئے ٹرین حادثات پر فیڈرل گورنمنٹ ریلوے کی انسپکشن ٹیم نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں حادثات کی چند اہم وجوہات کا تعین کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریلوے حادثات کی بڑی وجہ کمزور اعصاب کے مالک ٹرین ڈرائیور ہیں، ڈرائیورز کی بھرتی معیار کے مطابق نہیں ہوتی، نفسیاتی اور جسمانی معیار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، عملے کی کمی کے باعث ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی ٹرینیں چلاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریلوے حکام انکوائریز رپورٹ پرعمل درآمد نہیں کرتے، پرانے پھاٹک کاغذوں میں بند مگر حقیقت میں زیراستعمال ہيں، کئی پھاٹک ختم ہونے کے باوجود استعمال ہورہے ہیں۔ ڈرائیورز اور ٹیکنیکل اسٹاف کی تعیناتی کے دوران جسمانی اور نفسیاتی معائنے کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے علاوہ عملے کی کمی کے باعث سینکڑوں لوگوں کی جانوں سمیت ٹرینیں ناتجربہ کار ڈرائیورز اور اسٹیشنز اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرز کے حوالے ہوتی ہیں۔ ریلوے حکام ایف جی آئی آر کی رپورٹس کو بھی نظرانداز کرنے لگے ہیں۔ ناقابل استعمال ٹریکس کا استعمال بھی حادثات کی بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا۔
 
اس انسپکشن ٹیم کی رپورٹ پر محکمہ ریلوے اور حکومت نے اب تک کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا، حالانکہ اس رپورٹ میں ان اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کیا گیا جن کی وجہ سے ٹرینوں کے حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔ تقریروں اور لفاظی جنگ کے ماہر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ ان کے دور میں ریلوے میں اس قسم کے سانحات رونماء ہورہے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کیلئے سرکاری خزانے سے امداد یا معاوضہ کا اعلان کرنے سے اب جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ صبح سے سوشل میڈیا پر عمران خان کے وہ پرانے کلپس زور شور سے وائرل ہورہے ہیں، جس میں وہ اقتدار میں آنے سے قبل ٹرین حادثات پر بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگر حکومت عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو اس محکمہ کو ہی بند کردیا جائے۔ کیونکہ انسانی جان سے قیمتی کچھ نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو اب ان حادثات کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی، چاہے یا حادثہ گیس سلنڈر کیوجہ سے پیش آیا یا شارٹ سرکٹ کیوجہ سے۔
 
خبر کا کوڈ : 824987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش