0
Saturday 28 Dec 2019 22:59

ایران، روس، چین کی مشترکہ جنگی مشقیں اور خطے کی بدلتی مساواتیں

ایران، روس، چین کی مشترکہ جنگی مشقیں اور خطے کی بدلتی مساواتیں
تحریر: ڈاکٹر شعیب بہمن

خطے میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے ان دنوں خلیج اومان اور بحر ہند کے شمالی حصے میں ایران، روس اور چین کی مشترکہ نیوی جنگی مشقیں جاری ہیں۔ ان مشقوں میں شرکت کیلئے روس اور چین کے جنگی بحری بیڑے چابہار کی شہید بہشتی بندرگاہ میں لنگرانداز ہوئے ہیں۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دنیا کی دو بڑی نیول طاقتوں یعنی روس اور چین کے ساتھ ایران کی یہ پہلی مشترکہ نیوی جنگی مشقیں ہیں۔ اگرچہ یہ جنگی مشقیں مختلف قسم کی ٹیکٹیکل مشقوں جیسے آگ لگے جہاز کو ریسکو کرنا، سمندری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے جہاز کی بازیابی، معینہ اہداف پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنا اور دیگر آپریشنل مشقوں پر مشتمل ہیں لیکن ان مشقوں کے اہداف اور نتائج کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یقیناً ان کا اثر خطے کی سطح پر موجود مساواتوں پر بھی پڑے گا۔ خلیج اومان اور بحر ہند کے شمالی حصوں میں ایران، روس اور چین کی یہ نیوی جنگی مشقیں درج ذیل مختلف پہلووں سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں:

1)۔ ایران، روس اور چین کے درمیان ان مشترکہ جنگی مشقوں کی اہمیت کا پہلا پہلو خلیج فارس، خلیج اومان اور بحر ہند پر مشتمل خطے کی اسٹریٹجک اہمیت سے منسلک ہے۔ یہ خطہ انرجی کے بھرپور قدرتی ذخائر سے مالامال ہونے کے ناطے دنیا کا ایک اہم ترین خطہ بھی ہے اور سب سے زیادہ خطرناک خطہ بھی شمار ہوتا ہے۔ تاریخ میں اس خطے میں ہونے والی جنگوں کی تعداد، زمینی اور حدود سے متعلق تنازعات اور قومی اور قبائلی جھگڑے ہی اس بات کے گواہ ہیں۔ دوسری طرف یہ خطہ گلوبلائیزیشن کے زمرے میں بھی انتہائی اہم اور مرکزی کردار کا حامل خطہ ہے جبکہ جیوپولیٹیکل اور جیوایکنامیکل اعتبار سے بھی اس خطے کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

2)۔ ایران، روس اور چین کی ان مشترکہ جنگی مشقوں کی اہمیت کا دوسرا پہلو اس خطے میں بیرونی کھلاڑیوں کی ترکیب تبدیل ہونے سے وابستہ ہے۔ اگر ماضی میں امریکہ اور برطانیہ جیسی مغربی طاقتیں اور کھلاڑی خلیج فارس کی بعض جنوبی ریاستوں کے ساتھ مل کر خلیج اومان اور خلیج فارس میں جنگی مشقیں انجام دیتے تھے تو آج اس خطے میں چین اور روس جیسے نئے کھلاڑی داخل ہو چکے ہیں تاکہ عالمی طاقتوں کے طور پر بھی متعارف ہو سکیں اور مغربی طاقتوں کے اہداف اور پالیسیوں کا بھی مقابلہ کر سکیں۔ یہ امر مستقبل میں خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں موثر کھلاڑیوں کی ترکیب پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

3)۔ ایران، روس اور چین کے درمیان حالیہ مشترکہ جنگی مشقوں کی اہمیت کا تیسرا پہلو ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے خطے سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے میں مضمر ہے۔ اگرچہ روس کافی عرصے سے خطے میں موجودگی اور خطے کے ایشوز میں شمولیت کا مشتاق تھا لیکن اب تک اسے کوئی ایسا موقع میسر نہیں آیا تھا جس کے ذریعے وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر سکے۔ اس کی بنیادی وجہ خلیجی ریاستوں کا حد سے زیادہ امریکہ پر انحصار تھا جس کے باعث امریکہ انہیں روس سے کسی قسم کا تعاون کرنے سے باز رکھتا تھا۔ اس کی ایک زندہ مثال حال ہی میں روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے خلیج فارس کی سکیورٹی کیلئے پیش کردہ "خلیج فارس میں اجتماعی سکیورٹی کا تصور" نامی منصوبہ ہے جسے تمام خلیجی ریاستوں نے یکسر نظرانداز کر دیا تھا۔ اسی طرح عالمی سطح پر بھی کسی بڑی طاقت نے اس کی حمایت نہیں کی تھی۔

دوسری طرف چین کی عام طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے ٹکراو کو صرف اقتصاد اور معیشت کے دائرے تک محدود رکھے۔ لیکن اب مشرق وسطی خطے میں ایران اور روس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں شریک ہو کر چین نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سکیورٹی اور فوجی میدانوں میں بھی امریکہ سے ٹکر لینے کیلئے تیار ہو گیا ہے۔ لہذا روس اور چین کی جانب سے ایران کے ساتھ مشرق وسطی خطے میں مشترکہ جنگی مشقیں انجام دینے کا مطلب یہ ہے کہ خطے سے متعلق ان کا نقطہ نگاہ اور پالیسی تبدیل ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ماسکو اور بیجنگ خطے میں زیادہ موثر انداز میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

4)۔ ایران، روس اور چین کے درمیان مشترکہ جنگی مشقوں کی اہمیت کا چوتھا پہلو ان جنگی مشقوں کے انعقاد کیلئے ایران کا تخلیقی کردار ہے۔ ایسے وقت جب گذشتہ کئی سالوں سے خلیجی ریاستیں خلیج تعاون کونسل جیسے ادارے بنا کر اور مغربی طاقتوں سے اتحاد تشکیل دے کر اپنی سکیورٹی یقینی بنانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھیں اور ان کوششوں کے باوجود کوئی خاطرخواہ نتیجہ حاصل نہیں کر پائی تھیں، اسلامی جمہوریہ ایران نے روس اور چین کو خلیج فارس میں مشترکہ جنگی مشقوں میں شرکت کرنے پر تیار کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایران کے تعاون کے بغیر خطے کی سکیورٹی یقینی بنانا ناممکن ہے۔ مزید برآں، ایران کی جانب سے ان جنگی مشقوں کے انعقاد کیلئے روس اور چین سے تعاون ظاہر کرتا ہے کہ تہران کے سامنے بہت سے آپشنز موجود ہیں اور اگر امریکہ اس خطے میں ایک سمندری اتحاد بنانے کی کوشش کرے گا تو ایران بھی دیگر ممالک کی مدد سے ایسا ہی اتحاد بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

لہذا مستقبل میں بھی جاری رہنے والی ایران، روس اور چین کے درمیان یہ مشترکہ جنگی مشقیں ظاہر کر رہی ہیں کہ امریکہ کی جانب سے خطے میں کسی نئے اتحاد کی تشکیل کی صورت میں ایران بھی روس اور چین جیسے اہم کھلاڑیوں سے اتحاد تشکیل دے کر واشنگٹن اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے تمام منصوبے ناکام بنا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ نکتہ اہم ہے کہ اپنے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران بدستور ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف محاذوں پر ایران کی جانب سے طاقت کے اس مظاہرے نے خلیجی ریاستوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایران کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی سکیورٹی یقینی نہیں بنا سکتے۔

خلیج فارس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی جنگی مشقوں اور فوجی شعبے میں ایران کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول نے عرب حکمرانوں کو اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ امریکہ ایران کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ درحقیقت ایران نے اب تک منعقد ہونے والی جنگی مشقوں کے ذریعے عرب حکمرانوں کو اس حتمی نتیجے تک پہنچا دیا ہے کہ وہ ایران سے کسی قسم کے فوجی ٹکراو کی صورت میں اپنے دفاع پر مبنی امریکی جرنیلوں کے دعووں پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت ایران کی جانب سے امریکہ کے گلوبل ہاک نامی جدید ترین ڈرون طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد زیادہ واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ یوں ایران، روس اور چین کی یہ مشترکہ جنگی مشقیں خطے میں ایک نیا باب شروع ہونے کا باعث بنیں گی اور خطے پر حکمفرما روایتی مساواتیں دم توڑ دیں گی۔ آج کے بعد خطے کی عرب ریاستوں نیز مغربی طاقتوں کو ایران کی اتحاد سازی کی طاقت کو بھی مدنظر قرار دینا پڑے گا۔ خاص طور پر یہ کہ مستقبل قریب میں خلیج فارس میں ایران اور روس کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی منعقد ہونے والی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 835322
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش