0
Monday 13 Jan 2020 10:48

پاکستانی وزیر خارجہ تہران میں

پاکستانی وزیر خارجہ تہران میں
اداریہ
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تہران میں ایران کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ مشہد کے گورنر کے بعد ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے اُن کی ملاقات ہوچکی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ ایک ایسے وقت ایران آئے ہیں، جب خطے میں ایران امریکہ دشمنی عروج پر ہے۔ امریکہ ایک بزدلانہ حملے میں قدس بریگیڈ کے کمانڈر، ایران کے ہردلعزیز جرنیل کو شہید کرچکا ہے اور ایران کیطرف سے عراق میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے عین الاسد پر حملہ ہوچکا ہے۔ ایران حملے سے پہلے ان تمام ممالک کو جہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں یا امریکہ ان کی سرزمین استعمال کرسکتا ہے، کو خبردار کر چکا ہے کہ جس ملک کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوگی، اُسے ایران اپنا دشمن قرار دیگا اور اُس پر جوابی حملے کا حق محفوظ رکھے گا۔ پاکستان ایران کے اُن ہمسایہ ممالک میں سے ایک ہے، جس کے ساتھ ایران کے گہرے دینی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے عوام دینِ اسلام اور ہمسائیگی کے بندھن میں بندھے ہوئے نیز ایک دوسرے کے لیے برادرانہ جذبہ و ہمدردی رکھتے ہیں۔

ایران کو عالمی سطح پر امریکہ اور خطے میں سعودی عرب اور اس کے حواریوں کی دشمنی کا سامنا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں ایران اور سعودی عرب کشیدگی میں فریق بننے سے گریز کیا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت انتخابات سے پہلے سعودی فرمانرواوں کو ڈکٹیٹر او امریکہ کا کاسہ لیس کہتی رہی ہے، لیکن اقتدار میں آکر پی ٹی آئی حکومت بالخصوص وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران پاکستان تعلقات کے بارے میں جو مواقف اختیار کیے ہیں، اُس پر پاکستان اور ایران کے ہمدرد حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ سعودی شہزادے بن سلمان کے دورہ پاکستان میں سعودی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں ایران کے بارے میں جو متنازع پریس بریفنگ دی تھی، اُس پر پاکستانی وزیر خارجہ کی خاموشی نے کئی سوالات اٹھا دیئے تھے، بعد میں بھی شاہ محمود قریشی آلِ سعود کی خارجہ پالیسی کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں قدس بریگیڈ کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت اور ایران امریکہ کشیدگی پر پاکستانی وزیر خارجہ کے بیانات پر پاکستان کے اندر کافی لے دے ہوئی ہے۔

بعض حلقوں نے اُسے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر خودکش حملہ بھی قرار دیا، تاہم ان تمام تنازعات کے باوجود شاہ محمود قریشی ایرانی حکام سے ملاقاتوں میں ایران سعودیہ کشیدگی میں ثالثی یا سہولت کاری کا نعرہ لیکر تہران پہنچے ہیں۔ پاکستان جو سعودی دباو کی وجہ سے کوالالمپور اجلاس میں شرکت نہ کرسکا اور امریکی دباو کیوجہ سے خطہ میں حق کا ساتھ نہیں دے سکا، کس منہ سے ثالثی، سہولت کاری یا کشیدگی کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا اس اقدام پر ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘‘ کی پھبتی کس رہا ہے اور رائے عامہ اس عمل کو ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ سے تعبیر کر رہی ہے۔ تاہم دیر آید درست آید کی اُمید کیساتھ پاکستانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ ایران کو پاکستانی وزارت خارجہ کی ماضی قریب کی غلطیوں کا ازالہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 838165
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش