0
Wednesday 22 Jan 2020 11:34

شہید سردار قاسم سلیمانی سے وابستگی اور مردہ باد امریکہ احتجاجی مظاہرے(2)

شہید سردار قاسم سلیمانی سے وابستگی اور مردہ باد امریکہ احتجاجی مظاہرے(2)
تحریر: آئی اے خان

اسلام آباد میں برآمد ہونے والی مردہ بادامریکہ ریلی میں شریک امامیہ ڈیزاسٹر سیل سے وابستہ ایک مستور کی رائے ''ہمارا یہ احتجاج شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کیخلاف نہیں بلکہ امریکہ کی اس جارحیت اور بزدلانہ فعل کیخلاف ہے کہ جس نے پورے خطے کو ایک بڑی جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی سازش کی ہے۔ محض اپنے ملٹری انٹرسٹریل کمپلیکس کا بزنس بڑھانے کی خاطر امریکہ پوری دنیا کا امن تاراج کرنے کے درپے ہے۔ ہمارا احتجاج امریکہ کے اس رویے کیخلاف ہے کہ جس کے تحت وہ دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کے اندر کہیں بھی کوئی بھی جارحانہ کارروائی انجام دینے سے پس و پیش سے کام نہیں لیتا ہے۔ ان امریکی پالیسیوں کیخلاف ہے کہ جس کے تحت دنیائے اسلام کا کوئی بھی ملک آج مکمل طور پر پرامن اور مستحکم نہیں۔ ہمارا احتجاج پوری دنیا کے امن کو درپیش اس خطرے کیخلاف ہے کہ جو امریکہ کی صورت میں سبھی کو درپیش ہے۔ امریکن ایمبیسی کی جانب ہمارا احتجاجی مارچ عالمی قوانین کے بھی مطابق ہے اور ملکی قوانین کے بھی۔'' 

میدان حرب و ضرب میں شہید سردار قاسم سلیمانی ایک ایسے ہتھیار شکن تھے کہ جنہوں نے اپنی حکمت اور تدبیر سے تمام تر امریکی حربوں اور پالیسیوں کو ناکارہ بنایا۔ تکفیر چاہے داعش کی صورت میں ہو یا تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں، بوکو حرام کی صورت میں ہو یا جبہة النصرہ وغیرہ کی صورت میں، امریکی و اسرائیلی ہتھیار ہے۔ ایسا ہتھیار کہ جس کے ذریعے امریکہ عالم اسلام کو یکے بعد دیگر تہ تیغ کر رہا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی امریکہ کے ان ہتھیاروں کے سامنے ایسی سیسہ پلائی دیوار تھے کہ جس سے ٹکرا کر یہ ہتھیار کند و ناکارہ ہوئے۔ امریکہ کے یہ آلات و آلہ کار جہاں جہاں بھی شہید قاسم سلیمانی سے ٹکرائے پاش پاش ہوئے۔ آج آپ دیکھ لیں کہ امریکہ کیخلاف جہاں جہاں صدائے احتجاج بلند ہو، جہاں جہاں قاسم سلیمانی کی تائید و حمایت میں آواز اٹھے، وہاں وہاں امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے ہتھیاروں یعنی تکفیریوں کو بھی اتنی ہی تکلیف ہے۔ یہ تکلیف اتنی زیادہ ہے کہ امریکہ کیخلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ (باایں نظر مخالفت بنتی بھی ہے، کفیل مشکل میں ہو تو مزدور کو اپنی روٹی کے لالے پڑ ہی جاتے ہیں۔)

شہید قاسم سلیمانی پہ امریکی حملے کے خلاف پاکستان میں احتجاج کیوں۔؟ پاکستان میں احتجاج اس لیے بھی کیونکہ پاکستان کو بھی آج امریکہ کے انہی ہتھیاروں کا سامنا ہے کہ جن کا سامنا شہید قاسم سلیمانی نے کیا اور اسے نابود کیا۔ افواج پاکستان کو بھی امریکی ہتھیاروں (تکفیری دہشتگرد گروہوں) کو ناکارہ کرنے کے جرم میں امریکہ نے متعدد بار نشانہ بنایا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ انتالیس مرتبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستانی افواج پہ حملہ آور ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی ہے، نہ ہی ہم سلالہ حملہ بھولے ہیں اور نہ ہی ایبٹ آباد، نہ ہی جی ایچ کیو میں امریکی نواز دہشتگردوں کا حملہ بھولے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ائیر، نیول بیسز پہ حملے بھولے ہیں۔ امریکہ کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ تمہارے ان زنگ آلود (امریکی ساختہ تکفیری) ہتھیاروں کیخلاف پاکستان کے عوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے اداروں کو بھی یہ بتانا مقصود ہے کہ شہید قاسم سلیمانی نے جس خطرے کو ایران میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے عراق اور شام میں وہاں کی عوام اور حکومت کی تائید و حمایت سے جاکر روکا اور اسے ختم کیا۔ پاکستان کو انہی خطرات کا سامنا ہے، جس کی دلیل ضرب عضب، ردالفساد و دیگر ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو شہید قاسم کی ضرورت ہے کہ جو امریکہ کے بنائے تکفیری ہتھیاروں کو کند کرسکے۔

پاکستان ایران کے ساتھ کیوں کھڑا ہو۔ تجزیہ کار، پالیسی سازوں نے ایک جملے سے یکطرفہ ٹرین چلا کر پوری خارجہ پالیسی کی لٹیا ڈبوئی ہوئی ہے۔ عالمی تعلقات پہ بات یا تحریر کی ابتدا ہی اسی جملے سے کرتے ہیں کہ ''ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات پہ انحصار کرتے ہیں'' ریاستوں کے تعلقات مفادات کی بنیاد پہ قائم ہوتے ہیں۔ او بھئی غلط ہے یہ۔ مفادات بہت بعد کی بات ہے۔ سب سے پہلے اقدار و اخلاق کی بات ہوتی ہے۔ کیا آپ بانی پاکستان سے زیادہ بڑے پالیسی ساز ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کے وجود کو عالمی و اخلاقی قوانین کے منافی قرار دیا اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ کیا یہ غلط ہے کہ قرارداد پاکستان سے پہلے قرارداد فلسطین پیش کی گئی۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کو سلامتی کونسل کے مستقل ممبران، نام نہاد ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں سراہا رہی ہیں۔ کیوں۔؟ محض اس لیے کہ عالمی تعلقات میں ایران نے ہمیشہ مفاد پہ اقدار کو مقدم رکھا۔

بھارت سے تمام تر تجارت کے باوجود کشمیر ایشو پہ پاکستان کی ڈٹ کر تائید و حمایت کی۔ عالمی سامراج کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے اور مقدمہ فلسطین پہ زیرو ٹالرنس پالیسی ہے، اس کی قیمت چاہے قاسم سلیمانی جیسے گوہر نایاب ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان کو بھی ایسی پالیسی کی ضرورت ہے کہ جو منطقی ہو اور اخلاق و اقدار سے وابستہ بھی۔ آپ یمن میں سعودی حلیف ہوں اور دنیا سے یہ امید رکھیں کہ کشمیر پہ آپ کی حمایت کریں تو دنیا کے پاس جواز تو ہے کہ یمن پہ سعودی تسلط کے حامی کشمیر میں بھارتی تسلط سے پریشان کیوں ہیں۔؟ یہی حال افغانستان کا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی قلابازی ملاحظہ فرمائیں۔ مشرق وسطیٰ میں ہم اسرائیل کیخلاف ہیں، یعنی امریکی پالیسی کے مخالف ہیں۔ اپنے خطے میں ہم روس کیخلاف ہیں اور امریکہ کے حق میں ہیں۔ دوسری جانب اپنے ملک میں یعنی پاکستان کے اپنے اندر ایران مخالف ہیں، (یہ ایران مخالف ہی پالیسی ہے کہ گیس پائپ لائن کی تعمیر کھٹائی میں ہے) حالانکہ ایران ہمارا برادر پڑوسی ہے۔ اقوام متحدہ میں مشرق وسطیٰ یعنی گریٹر اسرائیل کیخلاف ہم ایران کے ہم رکاب ہیں۔ عالم اسلام کے مفاد کی بات ہو تو ہم ملائشیاء سمٹ چھوڑ کر عربوں کے کلاس فیلو اور گلاس فیلو بن جاتے ہیں۔ یہ تھالی کے بینگن والی پالیسی ہی ہے کہ ہمارے پاسپورٹ کی عالمی ائیرپورٹس پہ تحقیر ہوتی ہے، یہاں تک وزیراعظم کی جامہ تلاشی بھی ہتک آمیز انداز میں کی جاتی ہے۔

پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ کا اعلان کیوں۔؟ کسی بھی ملک کا سفارتخانہ اپنے ہی ملک کا حصہ تصور ہوتا ہے۔ امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ، امریکی حکومت، امریکی ایوانوں کی جانب مارچ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی باقاعدہ دعوت پہ عراق میں موجود تھے۔ امریکہ کی عراق میں موجودگی کا کوئی قانونی، اخلاقی جواز نہیں ہے۔ امریکہ نے بیک وقت تین عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ امریکی حکومت یہ قبول کرچکی ہے کہ عراق پہ حملہ ان کی غلطی تھی، تو اس اس غلطی کے اعتراف کے بعد امریکہ کی عراق میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، چنانچہ امریکہ فوری طور پر انخلا کا اعلان کرے۔ امریکہ نے عوامی شہری علاقے میں شہید قاسم سلیمانی پہ عراق پہ حملہ کیا ہے، یہ تو جنگی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، جبکہ یہاں کوئی اعلانیہ جنگ ڈکلیئر نہیں تھی۔ امریکہ نے عراقی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر ایک تیسرے ملک کے فوجی جرنیل کو حملے میں نشانہ بنایا ہے، کیا اس کے بعد پوری دنیا اس خدشے کا شکار نہیں ہوگئی کہ ان کے فوجی یاسفارتی مشنز دنیا کے کسی ملک میں محفوظ نہیں ہیں۔؟

امریکی رویئے نے ویانا کنونشن سمیت تمام عالمی قوانین کو مجروح کیا ہے۔ مردہ باد امریکہ احتجاج کے مظاہرین ان عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کیخلاف امریکی سفارتخانوں کی جانب مارچ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو بیج بویا جاتا ہے، اس کا پھل کاٹنا پڑتا ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں اپنی تمام تنصیبات کو غیر محفوظ کیا ہے۔ انتقام سخت کی کوئی حد نہیں، کوئی صورت نہیں۔ کہیں بھی، کوئی بھی، کسی بھی جگہ امریکہ کو اپنے کئے پہ پچھتانے پہ مجبور کرتا رہے گا۔ چاہے وہ الشہاب کی کارروائی کی صورت میں ہو، عین الاسد پہ حملے ہوں، گذشتہ روز امریکی سفارتخانے کے نزدیک گرنے والے راکٹ حملے ہوں، دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کے سامنے عوامی احتجاج کی صورت ہو یا بیرونی ممالک میں امریکی فوجیوں اور اڈوں کو درپیش خطرات کی صورت میں۔ امریکہ کیخلاف احتجاج ملکی سالمیت کے عین مطابق ہے۔ امریکہ ہمارا اتنا ہی مجرم ہے کہ جتنا وہ عراق، افغانستان، شام، ایران، یمن، ترکی کا ہے۔ جن کے دل میں اسلام اور عالم اسلام کا درد ہے، وہ امریکہ کے خلاف مردہ باد امریکہ ریلیوں کا حصہ ہیں۔ تاریخ لکھی جاری ہے، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس کے خلاف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 839806
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش