0
Friday 31 Jan 2020 23:17

الہام

الہام
تحریر: سید توکل حسین شمسی

ایک سید زادی کو خواب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت نصیب ہوئی، عرض کیا بی بی سلام اللہ علیہا مردوں کے لئے جہاد، شہید ہوئے تو جنت اور اگر غازی ہوئے تو درجات، ہمارے لئے نجات کیسے ممکن ہے۔؟ تو بی بی سلام اللہ علیہا نے فرمایا تمہارے لئے چھ چیزوں میں نجات ہے۔ اس سید زادی کو جب بیدار ہوئی تو بس اتنا خواب یاد رہا اور وہ چھ چیزیں بھول گئیں، اس خواب نے تو گویا اس کی زندگی میں اک تلاطم برپا کر دیا، نسخہ نجات تو ملا پر خواب سے بیداری تک کے اس سریع سفر میں سنہری سیاہی خوابوں کی دنیا میں رہ گئی اور اس کے ہاتھ میں اک کورا کاغذ رہ گیا،  اب خوابوں کی دنیا سے وہ تحریر کون لائے؟ نجات کا سامان کون کرے؟ کبھی کبھی اک کافر بادشاہ کے خواب کی تعبیر کے لئے یوسف علیہ السلام جیسے الہیٰ پیغمبر کی ضرورت ہوتی ہے، پھر نجات کا سامان ہوتا ہے، پھر سنہری خوشے ڈالیوں میں محفوظ رہتے ہیں، پھر رود خشک کے کہر و خشکسالی سے نجات ملتی ہے، اب الہام فاطمی کون بتائے۔؟

وہ سید زادی کورا کاغذ لئے، نسخہ کیمیا کی طالب ہوئی، جو سیدۃ النساء، خاتون جنت کی طرف سے عالم نسواں کے لئے ورود بہشت کا پروانہ تھا۔ اس سید زادی کی حالت عجیب تھی، گویا یعقوب علیہ السلام سے یوسف علیہ السلام بچھڑ گئے ہوں، اب مصر سے کنعان کوئی تو خبر لائے، گویا یعقوب نبی علیہ السلام کی برستی آنکھوں کو بوئے یوسف کی تلاش ہے، بھرے مجمع میں بر سر منبر پوچھا، ماتمی دستوں سے، عزاداروں سے گویا ہوا، باطن و ضمیر میں سوچا، گریبان میں جھانکا، ذاکر و خطیب سے سوال کیا؟ اس خواب کو کوئی تو تعبیر دے، لیکن کوئی مداوا نہ ہوا، بس اتنا سمجھ آیا کہ وہ بتائے گا جو آل محمد علیہ السلام کے مزاج سے واقف ہوگا۔؟ جس ذاکر، خطیب کو مال سے مطلب ہے، اس کو مجمع کے مزاج سے سروکار ہے، وہ چلی اور ایک مجتھد کے دروازے پہ رکی۔

سوال کیا، سر جھکا، گویا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے در سے خیرات میں علم و معرفت کے گوشوارے ملے، گویا پھر بلال حبشی (رض) کے ہاتھ میں نظام شب و روز لگ گیا، اب نظر اٹھی، چہرے پہ مسکراہٹ کا بسیرا ہوا، لبوں پہ الہام کی رم جھم ہوئی، لرزتے ہاتھوں پہ قرآن آیا ناطق و صامت کی کڑیاں جڑنے لگیں، صامت نے بڑھ کر ناطق کی تفسیر میں آیات بکھیر دیں، سورہ ممتحنہ کی آیت نے بڑھ کر خواب کو تعبیر دی۔ جو آج کے اس دور میں بھی آل محمد (ع) کا لبادہ اوڑھ تھا، ان کے مزاج سے واقف تھا، لب گشا ہوا اور کہنے لگا، گبھرائیں نہیں، میں وہ چھ چیزیں بیان کرسکتا ہوں، کیسے؟ بالکل ویسے، جیسے یوسف علیہ السلام سے ملنے ایک دوست آئے تھے تو انہوں نے سوال کیا تھا کہ میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو، تو عرض کرنے لگا، سونا کان کے اور قطرہ سمندر کے سامنے کیا وقعت رکھتا ہے، جس کے سراپا حسن نے مصری خوبصورتی کی انگلیاں کاٹ دیں، احساس درد کو دل و دماغ کے پردے سے محو کردیا، اسے بھلا کیا تحفہ دیا جاسکتا ہے۔

سوچا سوچ کر تھک گیا، نظر ٹکی آئینے پر، چلو یوسف علیہ السلام کے لئے یوسف علیہ السلام ہی تحفہ ہو جائے، بس تمھیں بھی آل محمد (ع) کے گفتار و کردار کو اتنا اپنانا ہے کہ جب سامنا ہو تو دل اتنا شفاف ہو کہ ان کے کردار و گفتار کی تجلی ہو جائے، شاید اسی لئے خواستہ خدا قلب سلیم ہے، پھر تمھیں ان کے خواب کی تعبیر سوجھنے لگے، پھر خواب ابراہیم علیہ السلام امر الہیٰ ہو جائے، حقیقی علماء و مراجع بھی کچھ اس طرح آِئینہ دل کو شفاف کر لیتے ہیں کہ گویا آل محمد علیہم السلام کے گفتار و کردار کی تجلی گاہ بن جاتے ہیں۔ پھر جواب کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نظر جھکی، من میں جھانکا جواب دیکھ لیا، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ بات تو گریبان کی تھی، کائنات تو بس اسی کا پرتو ہے۔

فرمانے لگے، بی بی سلام اللہ علیہا کو قرآن سے بڑی الفت و محبت تھی، مولا علیہ السلام سے بھی چاہا تھا کہ یاعلی علیہ السلام میری قبر پر قرآن کی تلاوت کرنا۔ بی بی سلام اللہ علیہا خواب میں آپ کو وہ چھ چیزیں بیان فرمانا چاہ رہی تھیں، جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر خواتین سے بیعت لی تھی، تازہ ایمان لانے والی آئیں، رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی سے بھرا ایک ظرف منگوایا دست مبارک اس میں ڈبو دیا، دوسری طرف سے مسلمات آتیں اور پانی میں ہاتھ ڈبو دیتی تھیں، عجیب حجت خدا سے تعلق پانی کے مالکیول سے بھی بنایا جاسکتا ہے، تبھی تو عریضے پانی کے سپرد کئے جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابیات سے جن چیزوں پر بیعت لی تھی، وہ مندرجہ ذیل تھیں۔

1۔ خدا کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی، لگتا ہے شرک کا وار زیادہ نسوانی نزاکت و ضعف پر کارگر ہوتا ہے۔
2۔ چوری نہیں کریں گی، اس زمانے میں بھی خواتین شوہر کے مال سے چوری کرکے اپنے ننھیال میں دیتی تھیں، اس بات پر ایک خاتون کہنے لگی، جو پہلے چوری کی ہے اس کا کیا ہوگا، اس کا شوہر ابو سفیان بولا وہ معاف کرتا ہوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگے، گویا فتح مکہ کے موقع پر بہت کچھ معاف کیا گیا۔
3۔ بدکاری نہیں کریں گی۔
4۔ اولاد کو قتل نہیں کریں گی، چاہے سقط کی صورت ہو یا وئاد (زندہ درگور)، عورت نہ چاہے تو کوئی اس کی کوکھ سے امانت چھین نہیں سکتا۔
5۔ بہتان سے پرہیز کریں گی۔
6۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم اور تعلیمات سے نافرمانی نہیں کریں گی۔
بی بی سلام اللہ علیہا اس بیعت کے متعلق اس سیدہ کو خواب میں متوجہ کرنا چاہتی تھیں، پانی آج بھی موجود ہے، جب چاہو ہاتھ ڈال کر حجت خدا سے بیعت کر لو، پھر اس پر پابند رہنا، تمہاری نجات کا سامان ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 841879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش