0
Thursday 13 Feb 2020 21:35

پاک ترک تعلقات

پاک ترک تعلقات
تحریر: سید اسد عباس

پاکستان میں حکومت فوجی ہو یا سول، ہمارے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ ہمارے ان تعلقات کی بنیاد تاریخی بھی ہے اور مذہبی و روحانی بھی۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے باشندوں نے خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے تحریک خلافت چلائی، پھر برطانوی راج میں ہوتے ہوئے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے لیے مالی امداد بھیجی۔ یہی وجہ ہے کہ ترک مسلمان پاکستانیوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ برصغیر کے کئی سلاطین کا تعلق ترک نسل کے افراد سے تھا، جن میں خاندان غلاماں، خلجی سلاطین، تیمور اور پھر مغل حکمران سبھی ترکی النسل تھے۔ برصغیر کی زبان، ثقافت اور تاریخ ترک اثرات کے بغیر نامکمل ہے۔ خود اردو لفظ بھی ترکی زبان کا لفظ ہے، جو لشکر گاہ کے لیے بولا جاتا تھا، اسی لئے اردو کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا روم کی مثنوی معنوی جو بہت عرصہ تک پاکستان کے مدارس میں پڑھائی جاتی رہی، بھی برصغیر کے مسلمانوں کا فارسی زبان اور ترک سرزمین سے روحانی رشتہ استوار کرتی ہے۔

پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا، جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں ہوا، جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’’ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے۔‘‘ جہاں ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی غیر مشروط حمایت کرتا رہا ہے، وہیں 1954ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا اور قبرص پر ترکی کے حق کو فائق گردانا۔

1962ء میں ترک اور یونانی قبرصیوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ ترکی نے مسلم قبرصیوں کے تحفظ کے لئے افواج روانہ کر دیں۔ جس سے یونان اور ترکی میں بہت بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ تاہم اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے سبب جنگ ٹل گئی۔ پاکستان نے اس سارے دور میں ترکی کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر ترک مؤقف کی حمایت کی اور ترکی کو مکمل فوجی تعاون کا یقین دلایا۔ ترک حکومت پاکستان کی حمایت سے بے حد متاثر ہوئی، انہوں نے وزیر خارجہ فریدوں کمال کو خصوصی دورہ پر کراچی بھیجا، تاکہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جا سکے۔ اگرچہ کشمیر کی طرح قبرص کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے، تاہم ترک قبرصیوں کی حمایت میں پاکستان کا مؤقف ہمیشہ ترکی کی حمایت میں اٹل رہا۔

1984ء میں قبرص کا مسئلہ نئے سرے سے اقوام متحدہ کے سامنے آیا تو پاکستانی مندوب شاہ نواز نے ترک قبرصیوں کے مسلمہ حقوق کی بازیابی کے حق میں زوردار تقریر کی۔ پاکستان دفاعی معاہدہ بغداد میں ترکی اور عراق کے ساتھ شریک رہا ہے۔ 1965ء کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کو فوجی ساز و سامان، اسلحہ، گولہ بارود اور توپیں فراہم کیں۔ پاکستانی زخمی فوجیوں کے لئے ڈاکٹرز اور نرسوں کے وفود 1965ء اور 1971ء میں ترکی سے پاکستان آئے۔ 1964ء میں معاہدہ استنبول کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کے نام سے موسوم تنظیم وجود میں آئی۔ اگرچہ اِس تنظیم نے تینوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیاحتی اور ذرائع آمدورفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آج کل یہ تنظیم علاقائی معاشی کونسل کہلاتی ہے۔

اس وقت پاکستان خصوصاً پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں ویسٹ مینجمنٹ اور کئی بجلی گھر، سڑکوں کی تعمیر جیسے منصوبے ترکی کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ تجارت سے لے کر فوجی تربیت اور فوجی معاہدوں تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق سال 2018ء میں پاکستان اور ترکی کے درمیان تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالیت کا فوجی معاہدہ ہوا تھا۔ اسی طرح ترک فوجی پاکستان میں آکر تربیت لیتے ہیں اور پاکستانی فوجی ترکی جا کر۔ قدرتی آفات کے دوران بھی دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام بھی دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے میں ترکی نے 150 ملین ڈالر کے پیکیج کا اعلان کیا، اسی طرح پاکستان نے ترکی میں آنے والی 1999ء اور 2011ء کے زلزلے میں ترک عوام کی دل کھول کر مدد کی۔

اس وقت ترک صدر رجب طیب اردوغان پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں، عمران خان چاہتے ہیں کہ ترکی اور پاکستان کی باہمی روبط بالخصوص تجارتی روابط کو بڑھایا جائے۔ آج شاہ محمود قریشی نے ترک صدر کی آمد پر اعلان کیا کہ اگر ترکی سی پیک میں سرمایہ کاری کرے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ شنید ہے کہ ترک صدر کے حالیہ دورے کے دوران میں کئی ایک معاہدوں پر دستخط ہوں گے، جن میں ریلوے، اطلاعات، دفاع، تجارت اور معیشت کے شعبے شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دوہری شہریت کے معاہدے پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔ صدر رجب طیب اردوغان اور وزیراعظم عمران خان پاک ترک اسٹریٹجک تعاون کونسل کے اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے، جس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ عالم اسلام کے ان دو اہم ممالک کے نہ صرف باہمی روابط میں مزید گرمجوشی پیدا ہوگی بلکہ یہ اہم ممالک مل کر ایک مضبوط اسلامی بلاک کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کریں گے، جس کا آغاز کوالالمپور سے مہاتیر محمد نے کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 844422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش