0
Tuesday 18 Feb 2020 21:32

کراچی میں پھیلتی پراسرار زہریلی گیس

کراچی میں پھیلتی پراسرار زہریلی گیس
تحریر: طاہر یاسین طاہر

زندگی اپنی وحشت ناکیوں کے حملوں تلے سسک سسک کر جینے کا نام رہ گیا ہے کیا؟ خاک ایسی ترقی پر جو انسانی نسل کشی کے جدید طریقے ایجاد کرتی رہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کراچی میں پراسرار زہریلی گیس سوچی سمجھی دہشت گردانہ کارروائی ہے؟ یا کسی شخص، یا ادارے کی کوتاہی ہے۔ لیکن بہرحال حقائق تک پہنچنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حقائق کو جاننا پاکستانی قوم اور متاثرین کا حق ہے۔ کیا اب انسان یونہی نت نئے وائرس یا پراسرار زیریلی گیسوں کا شکار ہو کر موت کا رزق بنتے چلے جائیں گے۔؟ چین نے تو ہنگامی بندوبست کیا، اپنے شہر ووہان کو بند کیا، اس کے داخلی و خارجی راستوں پر آمد و رفت معطل کی، کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے چینی صدر نے فی الفور 13 ارب ڈالر جاری کیے، یعنی انتہائی احتیاطی تدابیر کے باوجود چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

عالمی میڈیا کو ووہان میں ویسی دسترس نہیں، جیسی کہ اسے کراچی میں ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلہ دراز ہوا تو پاکستان کے لیے اس معاملے کو سنبھال پانا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ اس کی وجہ بڑی سادہ اور سمجھ آنی والی ہے۔ نہ تو پاکستان چین کی طرز کا ترقی یافتہ ملک ہے، نہ پاکستان کے پاس چین جیسی معاشی اور جدید سہولیات ہیں۔ نہ ہی پاکستانی چینیوں جیسے ہیں۔ آنِ واحد میں یہ معاملہ حکومت کو لے ڈوبے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ کراچی میں ایک فیکٹری میں بھی آگ لگی تھی، اب عقدہ کھلا ہے کہ وہ آگ حادثاتی نہیں تھی بلکہ دانستہ لگائی گئی تھی۔ کراچی کے مخصوص سیاسی اور علاقائی حالات کے تناظر میں بھی موجودہ واقعہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تحقیقاتی رپورٹ آنے میں وقت ہے۔ ابھی تک تو جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اور متاثرین کی تعداد کی خبریں تسلسل سے اپ ڈیٹ ہو رہی ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل تجزیہ کار اندازے ہی لگا سکتے ہیں، ویسے بھی تجزیہ کاری حتمی حکم لگانے کا نام نہیں، بلکہ تجزیہ تو ماضی کے تجربات اور حال کی فعالیت کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

حتمی حکم فتوے میں لگایا جاتا ہے اور پھر اس کے مقابل دوسرا فتوے پہلے والے فتوے کے خلاف حتمی حکم لگاتا ہے، یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ کالم کاری یا تجزیہ نگاری میں ایسا کچھ نہیں کہ لکھاری کوئی حتمی حکم لگائے۔ ہم اپنے سماج کے مزاج اور اس کے ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں اسی لیے کہا کہ "پراسرار زہریلی" گیس کے ماخذ کو تلاش کرتے ہوئے، یا اس کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرتے ہوئے تخریبی پہلو کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ دشمن جب حملہ آور ہوتا ہے تو وہ کئی حربے آزماتا ہے۔ تخریب کا مطلب ہی کسی سماج کی اجتماعی ہیئت میں دراڑیں ڈالنا اور اس میں خوف پیدا کرنا ہے۔ اگر ساحلی پٹی کے علاقوں میں، جیسا کہ کہا گیا کہ معمول کی بات ہے تو اس سے قبل ایسا کیوں نہ ہوا؟ کہ ساحل کے نزدیک آبادیوں کے افراد زہریلی گیس سے متاثر ہو کر اگلے جہان پہنچ گئے ہوں؟ یا وہ کم از کم اس حد تک متاثر ہوئے ہوں کہ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے ہوں؟ مشکل اوقات میں ذمہ دارانہ رویہ ہی حالات کی کشتی کو پار لگاتا ہے۔

جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق "کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 14 ہوگئی جبکہ متاثرہ افراد کی تعداد 300 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ محکمہ صحت سندھ نے 14 اموات کی تصدیق کی اور بتایا کہ 9 افراد ضیاء الدین ہسپتال، 2 سول ہسپتال، 2 کتیانہ میمن ہسپتال اور ایک برہانی ہسپتال میں انتقال کرگئے۔" سندھ انوائر نمنٹل پروٹیکشن ایجنسی "ایس ای پی اے"  کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل نے  میڈیا کو بتایا کہ ہمیں شبہ ہے کہ گیس کا اخراج تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ سے ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریلوے کالونی سے ملحقہ آئل اسٹوریج یارڈز ہیں، جہاں پیٹرول سے بھرے جہاز ان لوڈ ہوتے ہیں اور تیل اسٹور کیا جاتا ہے، جبکہ ٹینکس کی صفائی بھی یہیں کی جاتی ہے۔ نیز ڈی جی سیپا نے میڈیا بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پی ٹی" میں پیٹرولیم کوک کا جہاز بھی موجود ہے، جس کا کنٹینر کھولنے سے کافی مضر صحت گیسز خارج ہوتی ہیں۔ یہ یاد رہے کہ کراچی کے علاقے جیکسن مارکیٹ میں شہریوں نے احتجاج کیا۔ جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کرنے والے شہریوں نے وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔

اس سے پہلے کمشنر کراچی افتخار شالوانی نے کہا تھا کہ ایک جہاز سے سویابین یا اسی طرح کی کوئی چیز اتاری جا رہی تھی، جس سے زہریلی گیس کے اخراج کے حوالے سے تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔ کمشنر کراچی افتخار شالوانی نے گذشتہ روز سندھ کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ جس جہاز سے سویابین یا اسی طرح کی چیز اتاری گئی تھی، وہ زہریلی گیس کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "جب جہاز سے سامان اتارنے کا کام روک دیا جاتا ہے تو گیس میں کمی آتی ہے، جبکہ وزیر بحری امور علی زیدی نے کمشنر کراچی کے بیان کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ابھی یہ بحث جاری ہی ہے کہ پراسرار زہریلی گیس کی وجوہات کیا ہیں، تو اسی اثناء میں ایک تازہ خبر یہ موصول ہوئی کہ "جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بیالوجیکل سائنسز "آئی سی سی بی ایس" نے حکومت سے کہا ہے کہ کیماڑی کے مکینوں کو سانس لینے میں دشواری کا مسئلہ سویابین ڈسٹ کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔

میری دانست میں وجہ کوئی بھی ہو، حکومت کی اولین ذمہ داری شہریوں کی حفاظت اور ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ساتھ ان کو سزا دینا بھی ہے۔ اس پراسرار زہریلی گیس کا اخراج رات کے تقریباً ساڑھے 8 بجے سے 9 بجے کے درمیان شروع ہوتا ہے اور شام کو ہی مساجد سے شہریوں کو اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھنے کے خصوصی اعلانات کیے جاتے ہیں۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ جدید ترین دور میں دو دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک گیس کے اخراج کے ماخذ کا علم نہیں ہوسکا۔ صوبائی و وفاقی حکومتیں ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے میڈیا پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ پراسرار زہریلی گیس کے اخراج کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو صوبائی و وفاقی حکومتوں نے کوئی ہنگامی احتیاطی اقدامات کیے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ بالکل نہیں۔ کوتاہی اور مسلسل کوتاہی ہماری اجتماعی سماجی و سیاسی تاریخ کا المناک حصہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 845382
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش