0
Thursday 27 Feb 2020 00:07

کرونا وائرس، مصائب و شرور اور حکمت الٰہی؟(1)

کرونا وائرس، مصائب و شرور اور حکمت الٰہی؟(1)
تحریر: محمد حسن جمالی

اس وقت پوری دنیا کو جس چیز نے خوفزدہ کر رکھا ہے وہ کرونا وائرس ہے، جس کا انکشاف چین میں ہواـ اس بیماری نے چین کے اندر بہت سارے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اب اس کی لہر چین کے علاوہ دوسرے ممالک میں پہنچنے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی جارہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اس جان لیوا مرض سے محفوظ نہیں رہا، شنید ہے ایران کے شہر قم میں کچھ افراد کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس کے سبب ایران کے تمام شہروں میں لوگ خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں، اس پر بہترین گواہ تعلیمی اداروں سمیت مختلف اداروں میں ایک ہفتے کے لئے فعالیتوں کو محدود کرنا ہے، ایرانی چینلز پر محکمہ صحت کے وزیر سمیت بڑے طبی ماہرین اپنی قوم کو اس وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ احتیاط راہ نجات ضرور ہے، کسی بھی بیماری کی پیش بندی کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا عین دانشمندی ہے لیکن ایرانی معاشرے میں کرونا وائرس کے بارے میں معقول حد سے زیادہ ہی حساسیت دیکھنے میں آرہی ہے جو درست نہیں کیونکہ یہ ہزاروں بیماریوں میں سے ایک ہے، البتہ اس غیر معقول حساسیت کو پھیلانے میں دنیا کے میڈیا کا کردار زیادہ دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ بہت سارے لوگ اس وائرس کے خوف سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ اس وائرس کے دنیا کے مختلف ملکوں میں پہنچنے کے باوجود دنیا کے میڈیا پر لوگ فقط ایران میں اس کے پھیلاؤ اور اس کے سبب واقع ہونے والے جانی تلفات کا مکرر تذکرہ کرنا جائے تاسف آور ہے جس کے سبب غور و فکر کے عادی افراد کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات کا جنم لینا فطری ہے۔ جیسے چین میں اس وائرس  کے پھیلاؤ کا سبب کیا ہے؟ یہ بیماری چین کے ہمسایہ ممالک کو چھوڑ کر ایران میں کیسے پہنچی؟ ایران کے پارلیمانی الیکشن سے ایک دن پہلے ہی اس وائرس کی آمد کی خبر عام کیوں ہوئی۔؟

دنیا کے میڈیا پر چین کے بعد فقط ایران میں ہونے والے اس وائرس کا انکشاف تجزیہ کاروں کی بحث کا موضوع ہی کیوں؟ اس وائرس کے سبب ایران میں مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں جھوٹ پر مبنی مبالغہ گوئی سے کام لینے کے اہداف کیا ہو سکتے ہیں؟... ان سوالات میں سے ہر ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے لیکن سردست زمینی حقائق اور حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو کرونا وائرس نامی بیماری شیطان بزرگ امریکہ کی سازشوں کا حصہ ہونے کا احتمال قوی دکھائی دیتا ہے، وہ اپنی اس سازش کے ذریعے دو بڑے طاقتور ملک چین اور ایران میں دن دگنی رات چگنی ہونے والی ترقی اور پیشرفت کا راستہ روکنا چاہتا ہے، اس ہدف کے حصول کے لئے اقتصادی پابندی  سمیت مختلف حربے استعمال کرکے جب امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اب وہ نفسیاتی جنگ کے ذریعے ایران اور چین کو کمزور کرنے کے درپے نظر آتا ہے لیکن ممکن ہے اس سازش کے ذریعے وہ ایران اور چین کو اقتصادی وقتی بحران کا شکار کرسکے مگر یہ طے ہے کہ وہ اپنے نا پاک عزائم میں ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوگاـ

اگر دنیا کا میڈیا ایران میں انکشاف ہونے والی اس بیماری (کرونا وائرس) پر شب و روز  من گھڑت تبصرہ کررہا ہے، مبالغہ گوئی کر رہا ہے، بلکہ بڑھا چڑھا کر جھوٹ پر مبنی باتیں کرکے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے میں کردار ادا کررہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ دنیا کے میڈیا کی زمام امریکہ کے ہاتھ میں ہونا ہے، میڈیا کا آزاد نہ ہونا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت پاکستانی میڈیا سمیت دنیا بھر کے میڈیا امریکہ کے اشارے سے ہی اپنی فعالیتیں سرانجام دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشیش میں مگن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ کی تعریف اور تمجید کرتے نہیں تھکتےـ جب ایران کا مایہ ناز جنرل مدافع اسلام و مسلمین شھید قاسم سلیمانی کو مسلمانوں کے حقیقی دشمن امریکہ خناس نے بغداد کی سر زمین پر بڑی بے دردی سے شھید کروایا، تو اس موقع پر بھی ہم نے مشاہدہ کیا کہ دنیا کا فضلہ خور میڈیا کی پوری کوشش یہ رہی کہ امریکہ کے اشارے سے اس مجاہد اسلام کو  دنیا والوں کے سامنے دہشتگرد ثابت کیا جائےـ

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس موقع پر پاکستان کی سرزمین سے کچھ تکفیری قلمکاروں نے قلم کی حرمت پائمال کرتے ہوئے اپنی قلمی طاقت کا استعمال کیا، انہوں نے اسلام کے عظیم ہیرو شھید قاسم سلیمانی کو اسلام کے کٹر دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کرنے کی سرتوڑ کوششیں کئیں، مگر اسی سرزمین سے مرد آزاد لاہور کے رہنے والے معروف صحافی برادر توقیر کھرل شھید قاسم سلیمانی کی رسم چہلم کی ادائیگی سے قبل ایک ایسی کتاب منظر عام پر لائے جس نے تکفیری قلمکاروں کے پرویپیگنڈے کا پردہ چاک کیا اور پاکستان سمیت پوری دنیا کو شھید والا مقام کی شخصیت کا درخشاں چہرہ دکھایا کیونکہ اس کتاب میں نوجوان صحافی توقیر کھرل نے شھید کے بارے میں دنیا بھر کے حریت پسند علمی شخصیات کے تاثرات و انٹریوز سمیت پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے انصاف پسند چیدہ قلمکاروں کے شھید کے بارے میں لکھے گئے کالمز جمع کئے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے یہ کتاب مختلف قیمتی افکار، خیالات اور تاثرات کے پھولوں کا حسین گلدستہ ہے، بلاشبہ برادر توقیر کھرل کا یہ کارنامہ عظیم ہے، علم دوست افراد کے دلوں میں اسی کے ذریعے اس کی محبت ہمیشہ تازہ دم رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 847043
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش