0
Saturday 21 Mar 2020 10:45

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (6)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت، آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں (6)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

گذشتہ سے پیوستہ
زیرنظر تحریر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت پر ڈاکٹر راشد عباس نقوی کی کتاب ’’ڈاکٹر محمد نقوی شہید آئیڈیالوجی، ویژن اور حکمت عملی کے تناظر میں‘‘، کا ایک باب ہے، جسے قارئین کے استفادہ کیلئے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت کا اگلا جملہ یہ ہے کہ ’’میری مالکیت ظاہری میں اگر کوئی شخص یا تنظیم دعوے دار ہو تو اسے ضرور پہلے اس کا حق دیا جائے‘‘۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو قریب سے جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قومی وسائل کے خرچ میں کتنے محتاط تھے، بلکہ ان کی روش یہ تھی کہ تنظیمی دوستوں سے ان کی بساط کے مطابق عطیات ضرور لیتے تھے وہ ذاتی طور پر بھی اور اپنے دوستوں کو بھی کبھی تنظیم پر بوجھ نہیں بننے دیتے تھے۔ ان کے نماز جنازہ پر آئی ایس او کے ایک سابق صدر نے وصیت کے یہ جملے سن کر روتے ہوئے یہ کہا تھا ڈاکٹر شہید تنظیم میں آنے سے پہلے مالی حوالے سے بہتر تھے اور تنظیم پر انہوں نے ہمیشہ خرچ کیا ہے، تنظیم سے لیا نہیں۔ ان کا کہنا تھا شہید ڈاکٹر کی ذاتی مالکیت میں کمی ضرور ہوئی ہو گی اضافہ ممکن نہیں۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے مشکل پیش آ رہی ہے لیکن میں اس وصیت کے ان جملوں سے یہ سمجھ رہا ہوں کہ شہید تمام تنظیمی عہدیداروں اور قومی وسائل کے امین افراد کو یہ راستہ دکھا رہے ہیں کہ کسی بھی تنظیمی عہدیدار چاہے وہ ایک کارکن ہے یا قائد اسکے پاس قومی وسائل کا ایک پیسہ بھی اسکا ذاتی نہیں، بلکہ یہ امانت ہے اور بہتر ہے اس امانت کو اپنی زندگی میں ہی متعلقہ افراد کے حوالے کر جاؤ نہیں تو یہ جرأت ضرور کرو کہ اپنے وصیت نامہ میں لکھ جاؤ کہ قومی ذمہ داریوں کےدوران انہیں جو کچھ ملا وہ انکا  ذاتی نہیں وہ ان کا ورثہ نہیں کہ بچوں میں تقسیم ہو جائے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنے وصیت نامہ میں حق و حقیقت کا یہ راستہ دکھا رہے ہیں کہ قومی وسائل اور تنظیمی سرمایہ نہ زندگی میں اور نہ ہی موت کے بعد کسی عہدیدار کا ذاتی ورثہ بن سکتا ہے چاہے وہ ٹرسٹ بنا کر اکٹھا کیا جائے یا ذاتی اکاؤنٹ میں۔ خداوند عالم کے ہاں کچھ پوشیدہ نہیں کہ کس نے کونسا مال کہاںسے حاصل کیا لہذا وہ تنظیمی و قومی شخصیات جو ملکی قانون کو دھوکہ دیکر کسی ٹرسٹ کے سائے میں ممکن ہے قومی وسائل کو اپنی اولادوں میں تقسیم کر دیں لیکن اخروی حساب کتاب سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی وہاں نہ کوئی وکیل کام آئے گا نہ ہی عہدہ اور نہ ہی منصب و تقدس۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی وصیت کے آخری حصے میں ایک سدا بہار نصیحت و وصیت کی جو ہر دور کے فرد کے لیے ہر شعبے اور میدان میں کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔ شہید کے بظاہر بڑے سادہ جملے ہیں لیکن جب میں نے ان پر سوچ و بچار اور تحقیق کی تو مجھے معصومین کی بہت سی احادیث و روایات اس مفہوم کو بیان کرتی ہوئی ملیں۔ میں اگر اس جملے کو  Universal Truth اور کائنات کی سچائی کہوں تو غلط نہیں ہو گا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی لکھتے ہیں: ’’خوشبختی ہے ان لوگوں کی جو باصلاحیت اور باشعور لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کے لیے جو اپنے سےکمتر ماحول میں پروان چڑھتے ہیں‘‘۔ علم لدنی اور سلونی کے مالک و مختار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ایک قول زریں کا مفہوم ہے کہ اگر راہ حق میں میرے سامنے دو راستے  یعنی آسان اور مشکل آئین تو میں مشکل کا انتخاب کرتا ہوں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے بھی ایک مشکل اور دشوار راستے پر گامزن ہونے کی وصیت کی ہے ۔باشعور اور باصلاحیت  لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے شعور کو بلند و ارفع اور صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صاحبان  علم کی محفل میں جاہل کا گزر بھی نہیں ہو سکتا۔ باصلاحیت اور باشعور افراد کے ساتھ صلاحیتوں سے عاری اور بے شعور انسان وقت بسر نہیں کر سکتے۔ ؎ 
کبوتر با کبوتر باز با باز
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز

انسان جب اپنے سے بہتر افراد کے ساتھ بیٹھتا ہے تو سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اور بلند پروازی کے لیے بلند پرواز کی ہمراہی لازم ہے۔خوشبختی و حقیقی کامرانی عروج و ارتقا کے سفر میں ہے جو اپنے سے زیادہ با صلاحیت اور باشعور افراد کے ساتھ نشست و برخاست سے نصیب ہوتی ہے۔ باشعور اور باصلاحیت افراد ہی ترقی و ارتقا کے سفر کے راہی ہوتے ہیں وگرنہ علامہ اقبال کے بقول ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ
 اگر شاہین شاہینوں کی بجائے کوؤں کا ہم سفر و ہم محفل رہے گا تو وہ بھی کوے جیسا ہو جائیگا۔

وہ فریب خوردہ شاہین کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبرکیا ہے رہ رسم شاہبازی
شہید ڈاکٹر کے بقول ان افراد کے لیے یقینی  ہلاکت ہے  جو  اپنے سے کم تر ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہےہیں خاکبازی کا

انسان جب اپنے سے کمتر معلومات رکھنے والے اور صلاحیتوں سے  عاری افراد کے ساتھ زندگی گزارے گا تو نہ صرف اس کے اندر موجود صلاحیتوں میں نکھار  نہیں آئے گا بلکہ اسکی صلاحیتں ماند پڑ جائیں گی۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں  ’’من خالط الانزل احقر‘‘جو گھٹیا  لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے وہ پست اور حقیر ہو جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس شاہین نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
فارسی کا مشہور شعر ہے
تاتوانی می گریز از یار بد
یار بد بدتر بود از مار بد
مار بد تنہا تو را برجان زند
یار بد بر جان و بر ایمان زند

 برے دوست سے دوری اختیار کرو کیونکہ وہ برے سانپ سے بدتر ہے کیونکہ سانپ صرف تمہاری جان کو نقصان پہنچا سکتا ہے برے دوست تمہارے ایمان کے لیے خطرناک ہیں۔
پسر نوح با بدان بنشست خاندان نبوتش گم شد
سگ اصحاب کہف روزي چند پي نيکان گرفت و آدم شد
حضرت نوح ع کا بیٹا برے لوگوں کے ساتھ نشت و برخواست کرنے کے نتیجے میں خاندان نبوت سے نکال دیا گیا اور اصحاب کہف کا کتا اصحاب کہف کے قریب رہنے سے بہشتی حیوانات میں شامل ہو گیا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی چونکہ اپنے سے بعد میں آنے والوں کو اپنے سے بہتر دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ اس جملے میں پیش کر دیا کہ خوش بختی کے حصول کے لیے با صلاحیت اور باشعور افراد کے ہم رکاب رہو اور ہلاکت و پستی سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ایسی محفلوں ایسے دوستوں اور ایسے اجتماعات سے دور رکھو جو تمہاری پرواز میں کوتاہی کا باعث بنیں۔ خداوند عالم سے دعا گو ہیں کہ ہمیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں ایک شہید کی والدہ کے خواب سے الہام لیتے ہوئے جس میں وہ شہید اپنی والدہ سے کہتا ہے اے مادر گرامی آپ شب جمعہ کو میری قبر پر تشریف نہ لایا کریں کیونکہ شب جمعہ کو ہمیں سید الشہداء امام حسین ع کی زیارت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ اے میری عزیز ماں میں آپ کے آنے کی وجہ سے اس سعادت سے محروم ہو جاتا ہوں۔

میں نے یہ اپیل شہید علامہ عارف الحسینی سے بھی کی تھی اور ڈاکٹر شہید آپ سے بھی دست بستہ عرض کررہا ہوں کہ آپ بھی شب جمعہ کو جب سید الشہدا ء کے حضور مشرف ہوں تو ہمارے لیے بھی شہادت کی دعا کیجیے گا۔ ڈاکٹر شہید آج ہم میں اگر چند اچھائیاں ہیں تو آپکی وجہ سے ہیں اگر کوئی عزت و مقام ہے تو آپکی بدولت ہے خدا را آخرت میں بھی ہمیں تنہا نہ چھوڑئیے گا۔ خداوند نے شہداء کو شفاعت کا اختیار دیا ہے ہمیں بھی یاد رکھئیے گا۔

ختم شد۔۔
خبر کا کوڈ : 850860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش