0
Friday 6 Mar 2020 22:09

خاندان کا تقدس

خاندان کا تقدس
تحریر: سجاد احمد مستوئی
sajjadahmadmastoi5121472@
gmail.com

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایران سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان یورپ میں آباد تھا۔ وہاں پر ان کی نسلیں پروان چڑھ رہی تھیں۔ اس خاندان میں سے ایک لڑکا جوان ہوکر جب شادی کی عمر کو پہنچا تو اتفاق سے اس کا رشتہ ایران میں موجود ان کے رشتہ داروں کی کسی لڑکی سے طے پاگیا۔ اب یہ خاندان اپنے نوجوان بیٹے کی شادی کرنے کیلئے ایران آیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ولیمے اور نکاح کی تقریب کیلئے تہران شہر کے ایک مشہور اور مہنگے میرج ہال کو بک کروایا گیا۔ نکاح کے صیغوں کو جاری کرنے کیلئے ایک مولوی صاحب کو بلوایا گیا۔ شادی کا دن آن پہنچا  مولوی صاحب اپنے سادے لباس و انداز میں میرج ہال میں داخل ہوئے۔ دولہے کے والد نے مولوی صاحب کا استقبال کیا اور ان کو دروازے سے سٹیج پر لے گئے، جہاں دلہا اپنے چند دوستوں کے ساتھ تیار ہوکر بیٹھا تھا۔ مولوی صاحب کو نکاح پڑھنے کیلئے کہا گیا۔ جب مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا تو دلہے کا ایک دوست جس کی پرورش یورپ میں ہوئی تھی، مولوی صاحب کو کچھ حیران نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ جیسے وہ نکاح پڑھتے ہوئے کسی کو پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ جونہی مولوی صاحب نے نکاح ختم کیا فوراً وہ لڑکا بول اٹھا کہ مولانا جی آیا آپ کے ان دو کلموں، ان دو عربی کے جملوں کو ادا کرنے سے یہ دلہن اس دلہے کیلئے حلال ہوگئی ہے۔؟

طنزیہ انداز میں کہنے لگا کہ ان دو کلموں سے کیسے کوئی لڑکی ایک لڑکے کیلئے حلال ہوسکتی ہے۔ آپ کے ان جملوں میں کیا رکھا ہے۔ مولانا جی غصہ کیے بغیر بڑے تحمل کے ساتھ دھیمے لہجے میں بولے "اے حرام زادے تجھے کس نے اس محفل میں آنے کی دعوت دی ہے۔" سب حیران کہ مولانا نے یہ کیا کہہ دیا۔ اس لڑکے کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کہا کہ اے دو ٹکے کے ملا تمہاری جرات کیسے ہوئی مجھے حرام زادہ کہنے کی۔ مولانا جی پھر بڑے تحمل کے ساتھ بولے بیٹا کیا کیا ہے میں نے، دو لفظ ہی تو کہے ہیں، میرے ان دو لفظوں سے تجھے کیا ہوگیا۔ پھر مولانا صاحب سمجھانے کے انداز میں بڑے رعب کے ساتھ بولے کہ جس طرح میرے دو لفظوں نے تیرے اندر اثر کیا اور تجھے غصہ دلایا، اسی طرح عربی کے ان دو لفظوں نے اس رشتے پر اثر کیا اور دلہا دلہن کو تمام عمر کیلئے شادی کے مقدس بندھن میں جوڑ دیا ہے۔

انہی مقدس الفاظ کے ساتھ ایک خاندان تشکیل پاتا ہے۔ ایک ایسا خاندان کہ جس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے مقدس نام اور اس کے بنائے ہوئے مقدس قانون سے ہوتی ہے۔ اس خاندان کے ساتھ جڑے ہوئے تمام رشتوں میں تقدس اور احترام پایا جاتا ہے۔ دلہن دلہے کے ماں باپ کو اپنا ماں باپ سمجھ کر اور دلہا دلہن کے ماں باپ کو اپنے والدین سمجھ کر ان کا احترام بجا لاتے ہیں، بلکہ دلہا دلہن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تمام رشتوں کا احترام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح احترام و تقدس اور پیار و محبت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس مقدس و پاک رشتے کی وجہ سے جو اولاد وجود میں آتی ہے، وہ والدین کا احترام کرتی ہے۔ وہ اولاد باپ کے مقام کو سمجھتی ہے اور باپ کی محبت کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہے، اسی طرح ماں کے مقام کو سمجھتی ہے اور اس کی بے انتہاء مھر و محبت کا صلہ اسے احترام کی شکل میں دیتی ہیں اور والدین کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔

والدین بھی اپنی اولاد کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں۔ بیوی شوہر کے وقار کا خیال رکھتی ہے، شوہر بیوی کی عزت و احترام کا خیال رکھتا ہے۔ اسی طرح بھائی بہن کا احترام کرتا ہے اور بہن بھائی اور والد کی عزت و غیرت کو کسی بھی قیمت پر داغ دار نہیں ہونے دیتی۔ اس طرح پورا معاشرہ تقدس و احترام و محبت کے ڈانچے میں ڈھل کر سکون کی زندگی گزارنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سب ان نکاح کے دو لفظوں کا اثر ہے، جو مولوی صاحب شادی کے وقت پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ آپ تمام اس بات سے واقف ہیں کہ آج کل تہذیب و ثقافت اور فرہنگ کی جنگ ہے اور اس جنگ میں مغرب کو اس وقت ہم مسلمانوں پر ہر محاذ پر سبقت حاصل ہے۔ ہماری نسلیں مغربی لباس کو پسند کرتیں ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم مغرب کی طرز و تفکر کو ترویج دے رہا ہے۔ ہماری قومی زبان کو مغرب نے کافی حد تک ختم کرکے اپنی زبان کو ہم مسلط کر دیا ہے۔ اب یہ مغرب والے ہمارے خاندانی نظام کو ختم کرکے اس کے اندر موجود خدا کے تقدس کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔

والدین کے احترام کو روندنا چاہتے ہیں۔ غیرت، عزت، حیاء اور وقار جیسی فطری و ضمیر کی آواز کو دبا کر بے غیرتی، بے عزتی اور بے حیائی جیسے نفسانی و غریزی شعار کو مسلط کرکے ہمارے معاشرے کا سکون ختم کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے خوبصورت قانون کے تقدس کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے معاشرے میں کافی حد تک کامیابی سے خاندانی نظام کو توڑنے کے بعد اب ہمارے معاشرے کی طرف رخ کر لیا ہے۔ انہوں نے ہمارے معاشرے کے چند افراد کو خرید کر یا ان کو آزادی کا غلط مفہوم بتا کر ہماری معصوم بہنوں، بیٹیوں اور ماوں کو سڑکوں پر لاکر ان کی عزت کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کے تقدس کو توڑنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ ہمارے معاشرے کی چند خواتین نے جانے ان جانے میں دشمن کے تیر کا نشانہ بن کر اپنی عزت و وقار، اپنے ضمیر و فطرت کی آواز کے ساتھ ساتھ ہمارے اسلامی معاشرے کے تقدس کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا ہے۔ اب میری حکومت وقت سے اور ہر باضمیر شخص سے یہ گزارش ہے کہ وہ میدان عمل میں آکر اپنے اسلامی معاشرے کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں۔
خبر کا کوڈ : 851604
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش