1
Sunday 19 Apr 2020 08:30

عقیدہ بطورِ ہتھیار

عقیدہ بطورِ ہتھیار
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

انسان اور عقیدہ لازم و ملزوم ہیں، انسان واحد جاندار ہے جو عقائد کی تبلیغ کرتا ہے،  دوسروں کو اپنے عقائد کی طرف دعوت دیتا ہے، اپنے عقیدے کے مخالفین کو گمراہ کہتا ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر دوسروں کے نجس و پاک، غالی و نصیری، مشرک و موحد، مومن و مقصر اور مسلمان و کافر ہونے کے فتوے صادر کرتا ہے۔ ساری تاریخ میں انسان نے جتنی سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ عقیدے کے نام پر کیا، اتنا کسی اور نام پر نہیں کیا، حتیٰ کہ ممالک کی وسعت اور کشور کُشائی کیلئے بھی عقیدے کو بطورِ ہتھیار استعمال کیا گیا۔ آج بھی عقیدے کے نام پر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں، آپ کسی انسان کو کافر کہہ کر قتل کرسکتے ہیں، کسی کو مشرک کہہ کر منبر سے اتار سکتے ہیں، کسی کو غالی کہہ کر بزم میں بے عزت کرسکتے ہیں اور کسی کو مقصر کہہ کر اس کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ آپ عقیدے کا تڑکہ لگا کر سگے بھائیوں کو بغیر کسی خرچے کے آپس میں لڑوا سکتے ہیں، نمازیوں کو گولیاں مروا سکتے ہیں، مزارات، مندروں اور گرجا گھروں میں دھماکے کروا سکتے ہیں اور کسی بھی اہم شخصیت پر قاتلانہ حملہ کروا سکتے ہیں۔

آپ کہیں بھی چلے جائیں، لوگوں میں آگاہی جتنی کم ہوتی ہے، شعور جتنا پست ہوتا ہے، جہالت جتنی زیادہ ہوتی ہے، معاشرتی علوم سے جتنے ناواقف ہوتے ہیں، جدید دنیا سے جتنے کٹے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں عقیدے کے نام پر مشتعل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے بھی کسی کی ایک تقریر یا چند نعروں سے بھڑک کر آپس میں جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ ہر جگہ اور ہر زمانے میں چند انگشت شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو عقائد کو خالص رکھنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں، جن کا ہم و غم عقائد کی اصلاح ہوتا ہے، لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں۔ اکثریت عقائد کو اپنے مخالفین کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرتی ہے اور استعمال ہونے والے اپنے آپ کو مجاہد فی سبیل اللہ سمجھتے ہیں۔

طالبان، القاعدہ اور داعش کی تشکیل سے لے کر اپنے ملک کی دینی تنظیموں اور شخصیات کو ہی لے لیجئے۔ ایک ہی مذہب و مسلک اور فرقے کے اندر ہی بیک وقت متعدد لوگ اپنے اپنے مقاصد کیلئے عقیدے کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہیں، فلاں نعت خواں، فلاں منقبت خواں، فلاں قصیدہ خواں، فلاں شاعر مشرک، غالی، بدعتی  اور گمراہ ہے، چونکہ اُس نے یہ کہہ دیا ہے اور وہ کہہ دیا ہے۔ یہ ایک ہی مذہب کے اندر توحید اور شرک کا جھگڑا، یعنی "ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔" بات دراصل یہ ہے کہ وہ نعت خواں ہے اور میں خطیب ہوں، وہ منقبت خواں ہے اور میں مقرر ہوں، وہ قصیدہ خواں ہے اور میں شعلہ بیاں ہو، وہ سُریں لگا کر ایک گھنٹے میں اتنے روپے لے جاتا ہے کہ مجھے دس دن کی تقریروں کے بعد بھی اتنے نہیں ملتے، لہذا اُس منقبت خواں اور قصیدہ خواں کیلئے دین میں کوئی گنجائش نہیں۔

 اس کی زبانی لغزش پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، اس کے علمی نقائص کو چھپایا نہیں جا سکتا، اس کے الفاظ کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔ اسے روکا جانا ضروری ہے، اسے سننا شرک ہے، اسے منبر سے ہٹانا واجب ہے۔۔۔ لیکن چونکہ میں ایک خطیب ہوں، میرے سر پر عمامہ ہے اور کئی اہم علماء و خطباء سے میری رشتے داریاں بھی ہیں، لہذا میرے ہم صنف خطباء کو کھلی چھوٹ ہے، وہ جو چاہیں کہیں، اُنہیں غلط کہنے سے روکا نہیں جا سکتا اور اغلاط پر ٹوکا نہیں جا سکتا۔ اگر کسی نے روکا اور ٹوکا تو علماء کی توہین ہو جائے گی۔ ہر صاحبِ عمامہ کی زبان آبِ زمزم سے دُھلی ہوئی ہے، یہ جو بھی کہیں اِن کے نظریات کتابوں میں موجود ہیں، اِن کے کلمات علمی ہیں، ان کی اصطلاحات عالی ہیں، اِن کی علمی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ضروری ہے اور اِن کے نظریات کی تاویل واجب ہے۔

قارئینِ محترم! اگر میرے جیسے لوگوں کی طرف سے یہی پردہ داریاں، یہی تاویلیں  اور یہی طرفداریاں قصیدہ خوانوں اور منقبت خوانوں کی بھی کی جاتیں تو معاشرے میں یہ انتشار پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب تو کوئی ایسی بات رہ ہی نہیں گئی، جو شاعر اور قصیدہ گو کہتے ہیں اور آج کل کے خطباء نہیں کہتے!؟ اب عقائد سے چھیڑنا تو خطابت کا ہنر بن گیا ہے، اب جو عقیدے پر جتنی گہری چوٹ لگائے، وہی اتنا بڑا خطیب ہے، اب عقائد کو چھیڑ کر شہرت کی معراج پر پہنچنا تو عام چلن ہے۔ علمائے حق کو ہمارا سلام ہو، لیکن ایسے علمائے سُوء جو اپنی دوستیاں نبھانے، تعلقات چمکانے اور روابط بڑھانے کیلئے حقائق پر پردے ڈال کر عقائد کو قربان کرتے ہیں، اُن سے ہزار گنا بہتر وہ سیکولر اور لبرل افراد ہیں، جو لوگوں کے مذہبی عقائد سے نہیں کھیلتے اور پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا دینی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے، دینی عقیدہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 857584
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش