0
Tuesday 21 Apr 2020 21:16

کویڈ 19 کے معاشی اثرات

کویڈ 19 کے معاشی اثرات
تحریر: سید اسد عباس

آج کل کویڈ 19 دنیا کے اعصاب پر سوار ہے، ایسے میں خبریں بھی کویڈ کی ہیں اور فیصلے بھی کویڈ کے لیے۔ کویڈ سے ہٹ کر کچھ کہا بھی جائے تو شاید بے وقت کی راگنی کے مترادف ہوگا۔ فی الحال تو دنیا کویڈ کے انسانی زندگی پر پڑتے والے اثرات پر غور کر رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے گذشتہ دنوں اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ابھی بدترین حالت سے دوچار نہیں ہوئے، یعنی برے حالات اس سے آگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بتایا تھا کہ اس وائرس کو ہلکا مت جانیں، ہماری یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن کئی ایک ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس صورتحال کو سمجھنے میں وقت لگا اور ان ممالک نے جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ جن کے ادارے پر امریکی صدر نے چین میں کویڈ کے حملے کو درست طور پر نہ سمجھنے اور دنیا کو بروقت مطلع نہ کرنے کا الزام لگایا نیز عالمی ادارہ صحت کی امداد روکنے کا اعلان کیا، اس نے یہ باتیں جرمنی میں لاک ڈاون میں نرمی کے بعد کیں، وہ مسلسل دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں کہ اس وقت تک لاک ڈاون میں نرمی نہ لائیں، جب تک آپ اس وائرس کے کنٹرول کو یقینی نہیں بنا لیتے۔

اس وقت کویڈ سے ہونے والی اموات ایک لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ اموات دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکہ میں ہوئی ہیں، تاحال امریکہ اس آفت سے نمٹنے میں ناکام ہے۔ کبھی اس بیماری کے بارے کوئی تجزیہ سامنے آتا ہے اور کبھی کوئی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ایک بار یہ اپنی انتہائی سطح پر جائے گا اور پھر کنٹرول ہو جائے گا اگر ایسا ایک ملک میں ہوتا تو شاید یہ کہنا بجا تھا، تاہم کویڈ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور وائرس کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ بعض افراد میں تو کویڈ کی ایک بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ جیسا کہ احباب کے علم میں ہے کہ کویڈ اس قدر جان لیوا مرض نہیں ہے، جتنی اس کے مقابلے میں دیگر وائرل انفیکشنز تھیں، کویڈ کے اکثر مریض جلد صحتیاب ہو جاتے ہیں، تاہم ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اب تک دنیا اس وائرس کی ہلاکت خیزی کا درست تخمینہ لگانے سے قاصر ہے۔

اس وائرس نے جہاں انسانی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، وہیں اس کے معاشی اثرات بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اس وائرس نے ایک مرتبہ دنیا کی معیشت کا پہیہ مکمل طور پر جام کرکے رکھ دیا ہے۔ نہ جہاز اڑ رہے ہیں، نہ گاڑیاں چل رہی ہیں، نہ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور نہ ہی سرمایہ کی ریل پیل ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ سیاحت، ہوٹلنگ سے وابستہ لوگوں کا تو کاروبار بالکل بند ہے۔ معیشت کا ایک پرزہ چلاتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ یہ پرزہ دوسرے پرزے کے بغیر کسی کام کا نہیں ہے، اس دوران میں چلنے والے پرزے کے سبب مزید کیس سامنے آنے کی اطلاع ملتی ہے تو اس پرزے کو بھی دوبارہ بند کر دیا جاتا ہے۔ جرمنی اور امریکہ جیسے ممالک اپنی معیشت کو دوبارہ سے کھولنے کے لیے بے چین ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہمارا سرمایہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ فقط امریکہ میں تیس لاکھ افراد نے نوکری کے خاتمے کی وجہ سے حکومتی مدد کی درخواست دی ہے۔ ایسی ہی درخواستیں چھوٹے کاروباروں اور بڑی انڈسٹریوں کی جانب سے بھی موصول ہو رہی ہیں، جس کے لیے حکومت امریکہ نے 500 بلین ڈالر کا فنڈ مختص کیا ہے۔

دنیا بھر میں حکومتیں اپنے شہریوں کو ٹیکسوں پر چھوٹ دینے پر مجبور ہیں، جب کاروبار ہی نہیں، روزگار ہی نہیں تو بھلا عوام حکومت کو ٹیکس کہاں سے دیں۔ پس حکومتوں کے پاس بھی سرمائے کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ حکومتوں کے پاس اپنے اداروں کو ادائیگی کے لیے پیسے نہ ہوں۔ کویڈ کے دوران کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ کل ہی امریکہ کی WTI میں خام تیل کی قیمت اپنی کم ترین سطح منفی 40 ڈالر پر چلی گئی۔ یعنی تیل نکالنے والے لینے والوں کو تیل لینے پر ادائیگی کریں گے۔ ایسا کیوں ہوا، تیل کی کھپت میں کمی اور دنیا کی بہت سی معیشتوں کے تیل پر انحصار کے سبب روس اور سعودیہ میں یہ تنازع گذشتہ دنوں چلتا رہا کہ ہم تیل کی پیداوار کم نہیں کر سکتے۔ اب دنیا میں تیل کی کھپت تقریباً 30 ملین بیرل تک کم ہوچکی ہے، جو کہ تیل کی پیداوار کا تیسرا حصہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ تیل نکالنے والوں کے پاس اب تیل ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔ جب کویڈ آیا اور تیل کی قیمتیں گرنی شروع ہوئیں تو دنیا کے سمجھدار کاروباری دماغوں نے تیل ذخیرہ کرنا شروع کر دیا، تاکہ کویڈ کے خاتمہ پر اس سستے تیل کو مہنگے داموں بیچ کر منافع کمایا جاسکے۔

اب تیل چاہیئے ہی نہیں تو بھلا اس تیل کو کون خریدے۔ وہ ممالک جن کے ملک کا پہیہ تیل کی دولت سے ہی چلتا ہے، ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنی تیل کی پیداوار کو بند کر دیں، تاہم اب ان کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ وہ تیل کے کوئیں بند کریں اور اس انڈسٹری سے متمسک افراد بھی بے روزگاری کا شکار ہوں۔ تیل کی مارکیٹ کو مستحکم رکھنے والا ادارہ بھی اس صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ذاتی طور پر محمد بن سلمان اور پیوٹن سے گزارش کی کہ وہ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تیل کی قیمتوں کے استحکام کی جانب متوجہ ہوں، اس وقت برازیل وہ ملک تھا، جس نے اوپیک سے بعض مراعات لیں اور اپنی تیل کی پیداوار کو کم کیا، تاہم اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور تیل دھڑم سے زمین پر جاگرا۔ امریکا کے پاس اب بھی 21 ملین بیرل محفوظ کرنے کا ذخیرہ موجود ہے، تاہم اگر حالات بدستور ایسے ہی رہے تو یہ ذخیرہ مئی کے وسط تک پر ہو جائے گا اور پھر امریکا کے پاس تیل کی قیمتوں کو روکنے کا کوئی نظام نہیں رہ جائے گا۔

بروکنگ فناننشل ٹائمز کے مطابق دنیا کی معیشت جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ توقع تھی کہ یہ معیشت سال 2020ء میں 2.5 فیصد بڑھے گی، تاہم اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس میں 1 فیصد کمی آئے گی۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک تخمینہ ہے، جو کرونا سے پوچھ کر ہی لگایا جانا چاہیئے۔ مجھے لگتا ہے کہ سرمایہ دار مچھندر اب معاشی نقصان سے گھبرا چکے ہیں اور مسلسل اس معاشی پہیہ کو چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کرونا کے کیسز کچھ کم ہوتے ہیں تو کاروبار کھولنے کے اعلانات سامنے آتے ہیں، تاہم نہ ہی ڈیمانڈ ہے اور نہ ہی وہ حالات کہ کرونا کے دوبارہ حملے سے بچا جاسکے۔ چین نے متعدد انڈسٹریز کو کھولا ہے، لیکن وہ سامان بھیجے تو کہاں بھیجے۔

بروکنگ کہتا ہے کہ اس معاشی بحران کی بدترین سطح ابھی آنی ہے۔ پاکستان اور دنیا کے زرعی ممالک کو اشیائے خوردونوش کے حوالے سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ ہماری بنیادی ضروریات خود ہمارے ملکوں میں پیدا ہوتی ہیں، اگر یہ اجناس بیرون ملک نہ بھیجی جائیں تو یہاں ان اجناس کی ریل پیل ہوگی۔ جس کا مشاہدہ ہم کئی روز سے کر رہے ہیں۔ خالص دودھ اس وقت مارکیٹ میں 40 سے 50 روپے کلو پر فروخت ہو رہا ہے، جو اس سے قبل ناخالص حالت میں 100 روپے کلو تھا۔ اگر ملک میں ذخیرہ اندوزی نہ کرنے دی جائے اور اجناس کی بیرون ملک نقل و حمل پر چیک رکھا جائے تو امید ہے کہ باقی اشیائے صرف بھی سستے داموں پر دستیاب ہوں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں لاک ڈاون کے سبب لوگوں کی قوت خرید پر منفی اثر پڑا ہے۔
خبر کا کوڈ : 858111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش