10
Monday 18 May 2020 03:23

بیت المقدس پر زایونسٹ قبضہ کیسے ہوا(1)

بیت المقدس پر زایونسٹ قبضہ کیسے ہوا(1)
تحریر: محمد سلمان مہدی

تاریخ کے ایک ادنیٰ ترین طالب علم کی حیثیت سے اس حقیر نے اس مرتبہ فلسطین پر موجودہ قبضے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ تاریخ کی ورق گردانی کرتا رہا۔  پتہ چلا کہ یہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس طرح پھیلی ہوئی ہے کہ بس ان سروں کو ملا دیا جائے تو جو تھوڑی بہت کنفیوژن ہے، وہ بھی ختم ہو جائے۔ مگر، ان سروں کو ملا کر ایک مکمل اور جامع تاریخ شاید لکھی نہیں گئی اور اگر لکھی گئی تو دستیاب نہیں ہے۔ بیت المقدس پر وہ قبضہ جو 1948ء میں ہوا، دنیا کے بہت سے ملکوں نے ایک ملک اسرائیل کے عنوان سے اسے قبول بھی کر لیا۔ گو کہ بیت المقدس پر قبضے کو اسرائیل دنیا سے تسلیم کروانے میں تاحال ناکام ہے، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی حکومت نے اس سمت میں بھی اسرائیل کی اعلانیہ مدد، سرپرستی و حمایت کا آغاز کر دیا ہے۔

یقیناً درست طریقہ یہی ہے کہ فلسطین و بیت المقدس (یروشلم) جب سے ہیں، تب سے 1948ء تک کی تاریخ، یہاں کی آبادی و حکمرانوں کی تفصیلات سے آگاہ ہوں۔ بہت سے تاریخی حقائق ایسے ہوتے ہیں کہ جو سب کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں یا سب اس پر اتفاق کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات و حوادث ہوتے ہیں کہ جس پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ یہودیوں سے متعلق ہے تو جو تاریخ یہودی خود بھی مانتے ہیں، اس کے مطابق اگر ہم بات کریں تب بھی سرزمین مقدس فلسطین و بیت المقدس پر عرب و عجم مسلمانوں کی حکومت کا دورانیہ سوا بارہ صدیوں سے زائد کا عرصہ بنتا ہے تو تاریخی و مذہبی لحاظ سے بھی اس سرزمین پر مسلمانوں کا دعویٰ زیادہ مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔

یہ محض ایک مثال دی ہے۔ چونکہ حال ہی میں بیت المقدس کی تاریخ پر ایک تحریر کسی اور فورم پر آچکی ہے، اس لئے اس تحریر میں دیگر واقعات شامل کئے گئے ہیں اور یہاں تاریخ کو شروع کرتے ہیں صہیونی تنظیم سے کہ جس نے یہودیوں کو اپنے اپنے ملکوں سے یروشلم بیت المقدس واپسی کی ترغیب دی۔ 1880ء کا عشرہ اس حوالے سے اہم تھا۔ 1882ء میں وہاں حبت زیون یعنی صہیون کی محبت کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی۔ اسکا بانی لیون پنسکر تھا جس کا اصل نام Judah Leib تھا۔ وہ 1821ء میں پولینڈ میں پیدا ہوا، تب پولینڈ روس کا حصہ تھا۔ 1884ء میں اس نے پولینڈ میں کٹووٹز کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس میں ایک کمیٹی قائم کی گئی اور ان کی سرگرمیوں کا مرکزی شہر اوڈیسا بنا۔ یہ شہر اب یوکرین کا حصہ ہے۔ یہ تنظیم زرعی صہیونیت کے نظریئے کی بانی سمجھی جاتی ہے۔ زرعی صہیونیت کے نظریئے کو انگریزی میں (Hovevi Zionism) بھی کہا جاتا ہے۔

کوہ صہیون بیت المقدس میں ایک پہاڑ ہے۔ امریکی انگریزی میں زیون کہا جاتا ہے اور بتدریج لوگ اس کا تلفظ زایون بھی کرنے لگے۔ یعنی یہودیوں کے بعض خواص و زعماء اپنے اپنے ملکوں میں یہ مہم چلانے لگے کہ یہودی اپنے ملکوں سے نقل مکانی کرکے کوہ صہیون کے آس پاس آباد ہوجائیں۔ اس نظریئے کو صہیونیت، صہیون ازم کہتے ہیں، انگریزی میں اسے زیون ازم یا زایون ازم کہتے ہیں۔ البتہ اصطلاح لیون پنسکر کی اصطلاح حبت زیون تھی، جبکہ زایونسٹ اور زایون ازم کی اصطلاح 1890ء میں پہلی مرتبہ باقاعدہ لوگوں کے سامنے مشتہر کی گئی۔ سابقہ روسی سلطنت اور موجودہ یوکرین میں احد حاام (قلمی نام اشر جنزبرگ)1878ء میں اوڈیسا منتقل ہوا۔ احد حاام کی عمر تب 22 برس تھی۔ چونکہ اوڈیسا یہودی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ حبت زیون سے قبل بھی وہاں یہودی تنظیمیں سرگرم عمل تھیں۔ اس لئے یہ بھی ان میں شریک ہوا۔ بعد ازاں اسے ثقافتی یا روحانی صہیونیت کے بانی مفکرین میں شمار کیا جانے لگا۔

موجودہ ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیدا ہونے والے نیدن برن باؤم نے 1882ء میں دو دیگر شاگردوں کے ساتھ مل کر یونیورسٹی آف ویانا میں قدیمہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ یہ مغرب میں پہلی یہودی قوم پرست شاگرد تنظیم تھی۔ یاد رہے کہ ان دنوں دنیا بھر میں یہودی خواص و زعماء اپنے اپنے ملکوں میں مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل کر رہنے اور اس سماج کا جزو بن جانے کے نظریات کو پھیلا رہے تھے۔ نیدن برن باؤم نے 1884ء میں ایک پمفلٹ جاری کیا، جس میں اس فکر کو بیماری یا ذہنی مرض قرار دیا۔ ساتھ ہی اس نے لیون پنسکر ہی کے نظریات کو اپنے انداز سے پیش کرنا شروع کر دیا اور 1890ء میں اس نے زایونسٹ اور زایون ازم کی اصطلاحات استعمال کیں۔ 1892ء میں سیاسی زایون ازم کی اصطلاح ایجاد کی۔ 1893ء میں اس نے ایک بروشر شائع کیا۔ اس کا عنوان تھا یہودی قوم کا ان کے وطن میں دوبارہ قومی جنم، یہودی مسئلہ کے حل کا ایک طریقہ۔  با الفاظ دیگر یہودی قوم کی نشاۃ ثانیہ یا قومی احیاء، زایون ازم کا ایک ہدف تھا۔ سن1897ء میں پہلی زایونسٹ کانگریس یا صہیونی اجتماع کے انعقاد میں نیدن برنباؤم نے کلیدی کردار ادا کیا اور اسی کو زایونسٹ آرگنائزیشن یعنی صہیونی تنظیم کا پہلا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

یقیناً اس موضوع پر زیادہ تر تھیوڈور ہرزل کا نام سامنے آتا ہے، اس لئے اس تحریر میں اس صہیونی نظریئے سے متعلق دیگر حقائق کو پہلے پیش کیا گیا ہے۔ ہرزل موجودہ ملک ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں پیدا ہوا۔ یاد رہے کہ آسٹریا اور ہنگری دونوں پر مشتمل ایک سلطنت ہوا کرتی تھی اور سیاسی زایون ازم کا نظریہ یہاں سے منظر عام پر آیا۔ دونوں بانی شخصیات آسٹرو ہنگری سلطنت کے شہری تھے۔ 1896ء میں تھیوڈور بن یامین ذیو ہرزل کی ایک کتاب بعنوان یہودی ریاست شائع ہوئی تھی۔ تھیوڈور ہرزل نے پہلی زایونسٹ کانگریس کو زایونسٹ مقاصد کے حصول کے لئے ایک علامتی پارلیمنٹ قرار دیا تھا۔ ہرزل اس اجتماع کو جرمنی کے شہر میونخ میں منعقد کرنا چاہتا تھا، مگر مقامی یہودیوں کی مخالفت کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں منعقد کی۔ اس میں ہرزل کو صہیونی تنظیم کا (بانی) صدر منتخب کیا گیا۔

ہنگری کے میکس نورڈاؤ، یوکرین کے پیدائشی اور رومانیہ میں زرعی صہیونیت اور سیاسی صہیونیت کے لیڈر سیموئیل پائنلیس اور پولینڈ کے پیدائشی ابراہام ایڈولف سالز، یہ تینوں صہیونی تنظیم کے پہلے تین نائب صدور بنے۔ وہاں بازل پروگرام منظور کیا گیا۔ صہیونی تنظیم میں شرکت کی شرائط میں بازل پروگرام کو قبول کرنا اور زایونسٹ شیکل خریدنا شامل تھا، یعنی رکنیت کی سالانہ فیس کی رسید یا سند۔ البتہ یہ سند یا رسید حاصل کرنے کی شرط کسی یہودی کا کم سے کم اٹھارہ برس کی عمر کا ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ صہیونی تنظیم نے 1901ء تک سالانہ بنیادوں پر زایونسٹ کانگریس کا انعقاد کیا۔ یعنی چھٹا سالانہ اجلاس دو سال بعد 1903ء میں ہوا۔ دوسری جنگ عظیم یعنی 1939ء تک دو سال کے وقفے سے زایونسٹ کانگریس اجتماع ہوتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم سے یہ اجتماع تقریباً ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ یوگنڈا منصوبہ یا تجویز محض ایک عبوری درمیانی مدت کے لئے ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ اس کی حمایت کرنے والے میکس نورڈاؤ نے اسی لئے اسے رات کی پناہگاہ یا رات گذارنے کا ٹھکانہ قرار دیا تھا۔ زایونسٹ نیتا جانتے تھے کہ بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس لئے 1898ء میں ہرزل فلسطین اور استنبول بھی آیا۔ اس نے جرمنی کے بادشاہ قیصر ولہیم اور ترک سلطنت عثمانیہ کے سلطان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہاں سے مایوس ہو کر برطانوی بادشاہت کا رخ کیا اور 22 اکتوبر 1902ء کو برطانوی وزیر برائے نوآبادیات جوزف چیمبرلین سے پہلی ملاقات میں ہرزل نے اسے یہودیوں کا ہمدرد پایا۔ ہرزل کی اس سے دوسری ملاقات 1903ء میں ہوئی، جب چیمبرلین برطانیہ سامراج کی افریقی نوآبادیات کے دورے سے لوٹا تھا۔ وہاں سے ہرزل کو اشارہ ملا کہ مشرقی افریقہ میں انہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے جگہ مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے نوآبادی کے عنوان سے وہاں بھی قبضہ کر رکھا تھا اور ان دنوں پاکستان و ہندستان بھی اسی عنوان سے برطانوی سامراج کے قبضے میں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:  تحریر کے لئے استفادہ کیا گیا ہے:
اسرائیلی و مغربی ذرائع ابلاغ و تاریخ سے متعلق فورمز
جیوش ورچوئل لائبریری
بریٹانیکا انسائیکلو پیڈیا،
ڈکشنری آف دی مڈل ایسٹ (مصنف دلیپ ہائرو۔۔سینٹ مارٹنز پریس نیویارک 1996
(-97
دی مڈل ایسٹ ان ورلڈ افیئرز، مصنف جارج لینکزوؤسکی (کارنیل یونیورسٹی پریس، پہلی اشاعت 1952ء چوتھی اشاعت 1980ء)۔
انڈیانا یونیورسٹی پریس کے شائع کردہ مجلہ جیوش سوشل اسٹڈیز (ماہ جنوری 1951ء) میں شامل ایک مقالہ بعنوان ہرزل اینڈ انگلینڈ  
ڈیلیبریٹ ڈیسیپشن، مصنف پال فنڈلے (امریکی کانگریس مین)
فرام بابل ٹو ڈریگومینس، از برنارڈ لیوس
خبر کا کوڈ : 863304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش