2
Tuesday 26 May 2020 13:02

ارتغرل کے دیس میں اسرائیل کے جہاز

ارتغرل کے دیس میں اسرائیل کے جہاز
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کچھ سال سے ترکی کے ڈرامے بڑے طریقے سے پاکستانی معاشرے میں ترکی کی ترقی کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان ڈراموں کی اکثریت ایسی ہے جو مغربی افکار پر مبنی ہے اور ان کی کہانیوں اور دکھائی گئی طرز زندگی کا پاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے سوائے اشرافیہ کے مقامی سطح پر اہل پاکستان میں انہیں کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ چند سال پہلے ترکی نے ڈراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں ترکی کی عظمت رفتہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ فاتح قسطنطنیہ  سلطان محمد فاتح پر ایک تاریخی فلم بنائی گئی، جس نے کھڑکی توڑ بزنس بھی کیا اور ترکی کے اندر باہر ترکی کے بیانیے کو پہنچانے میں خوب کردار ادا کیا۔ اس کی کامیابی کے ساتھ ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی کی افواج نے مختلف مقامات پر جو عسکری کامیابیاں حاصل کیں اور بعض مقامات پر بہت بہادری سے لڑیں، ان پر فلمیں بنائی جانے لگیں۔ ان کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ترک قومیت کو ابھارا جائے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایسی خارجہ پالیسی کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے، جو توسیع پسندانہ ہو اور اس کی بنیاد ترک خلافت اور اسلام کو بنایا جائے۔

اس حوالے سے ارتغرل ایک عالی شان کہانی پر مشتمل ڈرامہ ہے۔ اس کی کہانی اور اس کی اداکاری متاثرکن ہے۔ شناخت کے بحران میں مبتلا نسل نو کو ماضی کی روایات کی طرف توجہ دلانے اور ان کی ذہن سازی کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم محترم جناب عمران خان صاحب نے لاک ڈاون کے دوران گھر میں رہنے اور اس ڈرامہ کو دیکھنے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی پی ٹی وی کو حکم دیا کہ یہ ڈرامہ پی ٹی وی پر دکھایا جائے، اب یہ ڈرامہ ہفتہ میں تین دن پی ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نے پی ڈی وی کو بہت زیادہ بزنس دیا ہے اور پاکستانی ناظرین کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔ پی ٹی وی کے یوٹیوب چینل پر دیکھنے والوں کی تعداد کئی ملین تک جا پہنچی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس ڈرامے نے اہل پاکستان کو اتنا کیوں متاثر کیا؟ اس میں دو چیزیں بہت ہی اہم ہیں، ایک اسلام اور دوسری قبائلی طرز زندگی، جو محبت، اپنائیت، اجتماعیت اور قربانی کے جذبے پر مبنی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ آج بھی قبائلی طرز کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جو بظاہر بڑے شہروں میں بس گئے ہیں، وہ بھی اپنے اندر قبائلی نظم و ضبط سے محبت ضرور رکھتے ہیں۔ بلاشبہ اس ڈرامے کرداروں کی مقبولیت وطن عزیز میں عروج پر ہے اور کروڑوں پاکستانی ان کے فین بن چکے ہیں، اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب ترین سیریل ہے۔

اس ڈرامے پر ملینز آف ڈالر کی انویسمنٹ کی گئی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے، حالانکہ اس کا حقیقت سے کچھ زیادہ تعلق نہیں ہے۔ ارتغرل غازی کے بارے میں چند بنیادی معلومات ہی دستیاب ہیں کہ وہ سلجوق سلطنت میں ایک چھوٹی سی ریاست سوگوت کے سربراہ تھے اور یہ خطہ سلطان علاء الدین نے انہیں ان کی جنگی مہمات میں کامیابی پر دیا تھا اور سوگوت بھی سلجوق سلطنت میں دیگر کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح ایک ریاست تھی۔ ماہرین کے مطابق ترکی کی عظمت دکھانے کے لیے کئی ایسے سلطان موجود تھے، جنہوں نے یورپ کو ناکوں چنے چبوائے رکھے اور ان کی زندگیاں بھی معلوم ہیں کہ انہوں نے کون سا معرکہ کب سر کیا۔ ان کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی ریاست کے سردار کی زندگی پر ایسا ڈرامہ کیوں بنایا گیا؟ ماہرین کے مطابق دراصل ترکی کی موجودہ قیادت جس قسم کی ذہنی تربیت کرنا چاہتی ہے، وہ کسی معروف شخصیت پر ڈرامہ بنا کر نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جو بھی واقعہ فلمایا جائے گا، اس کی تصدیق یا تردید کی جا سکتی ہے، مگر ارتغرل کا کردار بظاہر نامعلوم ہے، اس کے بارے میں جو بھی فلمایا جائے گا، اس پر کوئی سوال نہیں ہوگا۔ دوسرا خلافت عثمانیہ کے بڑے بادشاہوں پر بننے والی فلمیں مغرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو متاثر کرسکتی ہیں، کیونکہ ان جنگوں میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا، جس پر یہ قوتیں سوال اٹھا سکتی ہیں، ایسا کرنا بظاہر ترکی کے مفاد میں نہیں ہے۔

اس ڈرامے کے ترکی میں بہت زیادہ اثرات ہیں، اس نے ذہنی طور پر ترکوں کو تیار کیا کہ ہر مسئلہ ہم حل کریں گے۔ اسی لیے وہ پہلے شام میں داخل ہوئے، شام کے بعد  لیبیا میں داخل ہوگئے۔ اس تمام عمل میں مقامی سطح پر کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوئی، بلکہ زیادہ آوازیں ایسا کرنے کے لیے ہی اٹھی ہیں۔ ارتغرل پر اتنی انویسٹمنٹ کی گئی ہے کہ اس کا عربی، فارسی، انگلش اور اردو میں راتوں رات ترجمہ ہو جاتا ہے۔ اس کے اداکاروں کو عالی شان پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ ارتغرل کی اداکاری کرنے والے کا امیر قطر اپنے محل میں استقبال کرتے ہیں۔ ترکی خود کو امت کے ایک رہنماء کے طور پر پروجیکٹ کر رہا ہے، اسی لیے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے ارتغرل پر پابندی لگا دی ہے۔ لیبیا میں ترکی کی فوجی کارروائی سے ترکی اور متحدہ عرب امارات میں اختلافات پیدا ہوگئے تو پاکستان کے ٹویٹر پر پورا دن بائیکاٹ عرب امارات کا ٹرینڈ چلتا رہا، یہ اس انویسٹمنٹ کا فریش منافع تھا۔

ہم پاکستانی ابھی ارتغرل کی محبت میں دیوانے ہو کر آئے روز ٹرینڈ چلا رہے تھے اور ترکی کو امت کے مسائل کی دوا سمجھ رہے تھے کہ 25 مئی کو یہ خبر وائرل ہوگئی کہ دس سال کے بعد اسرائیل کا کارگو جہاز ترکی لینڈ کر گیا ہے، جس کا استقبال کیا گیا۔ یہ کوئی ابتدائی اقدام نہ تھا، اس سے پہلے اپریل میں ترکی سے ایک کارگو جہاز اسرائیل کی مدد کا سامان لے کر اسرائیل گیا تھا۔ اس خبر نے ہماری عقیدت کو توڑ دیا ہے، ہم سمجھ رہے تھے کہ ترک جہاز اڑیں گے اور بیت المقدس کو آزاد کرائیں گے، مگر یہاں الٹ ہوگیا، اسرائیل کے جہاز محبتیں بانٹنے کے لیے استنبول کی زینت بن گئے۔ ارتغرل پورے ڈرامے میں جس انصاف اور مظلوم کی حمایت کے لیے لڑتے دکھایا گیا ہے، اسی کے دیس میں مظلوم فلسطینیوں کے دشمن کے جہاز تعلقات مضبوط کرنے پہنچ گئے۔ ویسے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہماری عقیدت کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہو۔  ہم ہندوستان میں خلافت کے لیے مرے جا رہے تھے، مگر بابائے ترک کمال اتارک نے خلافت کی عبا اتار کر انگریزی لباس زیب تن کر لیا تھا اور  ہم دیکھتے رہ گئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 864829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش