1
Wednesday 27 May 2020 00:29

وینزویلا کو تیل کی ترسیل، ایران کا ایک اور جرات مندانہ قدم

وینزویلا کو تیل کی ترسیل، ایران کا ایک اور جرات مندانہ قدم
تحریر: سید اسد عباس

ایران اور وینزویلا کا ایک درد مشترک امریکی پابندیاں ہیں، نیز ان کی اقدار مشترک امریکی سامراجی عزائم کی مخالفت، آزاد اقتصاد اور حق خود مختاری ہیں۔ وینزویلا جنوبی امریکا کا ایک اہم ملک ہے، جو انیسویں صدی میں فرانس کی کالونی تھا۔ یہ جنوبی امریکہ کے ممالک میں سے پہلا ملک ہے، جس نے فرانس سے آزادی حاصل کی۔ وینزویلا میں زیادہ تر فوجی جنتا کے افسران برسر اقتدار رہے۔ اب وہاں سویلین صدر منتخب ہوتے ہیں۔ اگرچہ مغربی اور یورپی ممالک وینزویلا کی جمہوریت کو قبول نہیں کرتے۔ وینزویلا کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں، نیز دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک میں وینزویلا سرفہرست ہے۔ نکولیس مڈورو اس وقت وینزویلا کے صدر ہیں، جو ہوگیو شاویز کے نائب صدر اور جانشین کے طور پر جانے جاتے تھے، نکولیس کو برسر اقتدار آئے تقریباً سات برس ہوچکے ہیں۔ وینزویلا میں تیل کی پیداوار کے سبب امریکہ کی اس ملک میں دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ ہوگیو شاویز کے دور اقتدار میں امریکا اور وینزویلا کے تعلقات میں گرمجوشی ختم ہونا شروع ہوئی، جس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور وینزویلا کے کیوبا سے تعلقات تھے، جو کہ کیوبا کو تنہا کرنے کی امریکی پالیسی سے متصادم تھے۔ باراک اوباما کے دور میں امریکا نے وینزویلا کو اپنی قومی سالمیت کے خطرہ قرار دیا۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا کی یہ مسلسل کوشش رہتی ہے کہ وینزویلا کی حکومت کو کمزور کیا جائے، اسی مقصد کے تحت اس ملک پر مختلف وجوہات کی بنا پر پابندیاں عائد ہیں۔ ہوگیو شاویز کے دور اقتدار میں وینزویلا میں ایک سیاسی تحریک کا اغاز ہوا، جس میں حکومتی ردعمل کے مدنظر دنیا کے مختلف ممالک نے وینزویلا پر اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ یہ پابندیاں ایران کی مانند حکومتی شخصیات، اداروں، ان کے اثاثوں اور مختلف شعبہ جات پر ہیں۔ وینزویلا کے خلاف ان پابندیوں میں کینیڈا، یورپی یونین، میکسیکو اور دیگر اہم ممالک امریکا کے اتحادی ہیں۔ حکومت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے، تاہم وینزویلا کی عوام اور سربراہ مملکت نے ان پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور امریکا نیز اس کے اتحادیوں کے سامراجی عزائم کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا۔ وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود دنیا کے امیر ممالک میں شمار نہیں ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہی اقتصادی اور معاشی پابندیاں ہیں۔ حالیہ صورتحال کے سبب جہاں وینزویلا کی تیل کی فروخت متاثر ہوئی، وہیں وہاں خوراک کی ترسیل کا نظام بھی متاثر ہوا۔ تیل سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کمی ہوگئی۔

ایسے میں جب پوری دنیا نے وینزویلا کو تنہا چھوڑ رکھا تھا، ایران وہ واحد ملک ہے، جس نے امریکی، یورپی پابندیوں، دھمکیوں اور دھونس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وینزویلا کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اس وقت ایرانی تیل کے پانچ ٹینکر وینزویلا کی جانب رواں دواں ہیں، جن میں سے تین ٹینکر وینیزویلا پہنچ چکے ہیں۔ قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ گذشتہ برس چار جولائی کو برطانوی میرینس نے جبرالٹر میں گریس1 نامی ایرانی سپر ٹینکر پر قبضہ کر لیا تھا۔ برطانوی بحریہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس ٹینکر کو یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے جواب میں تحویل میں لیا گیا ہے۔ برطانیہ کا کہنا تھا کہ یہ تیل بردار جہاز شام کی جانب رواں دواں تھا۔ سپین کے قائم مقام وزیر خارجہ کے مطابق "گریس ون" جہاز کو امریکہ کی درخواست پر تحویل میں لیا گیا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان اقدامات کو "بحری قزاقی کی ایک قسم" قرار دیا تھا۔ اس اقدام کے جواب میں ایران کی سپاہ پاسداران نے بھی ایک برطانوی جہاز کو اپنی تحویل میں لے لیا، جس کے بعد برطانیہ کو ایرانی جہاز کو چھوڑنا پڑا۔

امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کی جانب سے یہ اقدام بنیادی طور پر جبرالٹر کے پانیوں میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے نیز دنیا میں اپنے تسلط کو مضبوط تر کرنے کی ایک کوشش تھی، جسے ناکامی کا سامنا ہوا۔ اسی دور میں ایران نے امریکی ڈرون بھی مار گرایا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت اور اس کے جواب میں ایران کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد ہی محسوس کیا جا رہا تھا کہ ایران اب ہر جارحیت کا جواب دے گا، اس کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ان حالات میں وینزویلا کی مدد فقط تیل کی ترسیل نہیں ہے بلکہ یہ امریکی اور یورپی یونین کے تسلط کے لیے کھلا چیلنج بھی ہے۔ ایران نے اپنے اس اقدام سے ثابت کر دیا ہے کہ سپر پاور امریکا، یورپ یا روس نہیں بلکہ سپر پاور قوموں کا وہ جذبہ اور عزم ہے، جس کے تحت وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی ہیں۔

وینزویلا میں جب پہلا ایرانی تیل بردار جہاز لنگر انداز ہوا تو وینزیلا کی حکومت اور عوام نے اس کا بھرپور استقبال کیا، دنیا ایران کے اس اقدام نیز امریکی دھمکیوں کا بغور مشاہدہ کر رہی تھی، تاہم جب کسی بھی خطرہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایرانی تیل وینزویلا پہنچا تو وینزویلا کے وزیر پٹرولیم الایسامی نے ایرانی آئل ٹینکر کو برادری و یکجہتی کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ ایران، وینزویلا کے ساتھ کھڑا ہے۔ الایسامی نے امریکی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عوام نے ٹوئیٹر ٹرینڈ کے ذریعے اس مشکل گھڑی اور خطرات میں مدد کرنے پر ایرانی عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ وینزویلا کے صدر نکولیس مڈورو نے بھی ایرانی آئل ٹینکر کے وینزویلا پہنچنے پر ایران کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وینزیلا اکیلا نہیں ہے اور ایران جیسا طاقتور اور نڈر ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

یہ واقع جہاں دو اقوام کے مابین برادری اور اظہار یکجہتی کی علامت ہے، وہاں دنیا میں طاقت کے توازن کے بدلنے کی بھی دلیل ہے، مردہ باد امریکا کا نعرہ جو اسی کی دہائی میں ایران کی فضاوں میں گونجا تھا، اب ایران کی سرحدوں سے باہر نکل کر دنیا کے مختلف ممالک کا شعار بن رہا ہے۔ اس میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کا منشاء و ہدف بھی یہی تھا کہ مستضعفین جہان کو مستکبرین کے خلاف متحد کر دیا جائے اور آزادی اور افتخار کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش و تڑپ کو نہ فقط بڑھاوا دیا جائے، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنے والی قوتوں کی عملی مدد بھی کی جائے۔ تیل کی ترسیل کا یہ واقعہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ایران آج بھی خط خمینی اور راہ انقلاب سے بال برابر بھی منحرف نہیں ہوا بلکہ اس کی آواز حق فزوں تر ہو رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 864930
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش