0
Saturday 13 Jun 2020 16:54

کورونا اور علاقائی تعاون

کورونا اور علاقائی تعاون
تحریر: محمد رضا ناظری
(قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران، لاہور)


ابھی تک کسی واقعہ نے اس حد تک عالمی خطرات کے مقابلے میں دنیا کی کمزوری کو عیاں نہیں کیا تھا، جتنا کورونا نے کیا ہے۔ یہ کمزوری اور ناتوانی پہلے درجے میں ایک ادراکی کمزوری ہے۔ حکومتوں کے سربراہوں کی سطح پر بہت سوں کا مفروضہ یہ ہے کہ ملکی اپروچ کیساتھ اس خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر بعض سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ان کے دشمنوں کو تہس نہس کرنے آئی ہے۔ اسی وجہ سے کم از کم کورونا کیخلاف جنگ کے ابتدائی تین ماہ کے عرصہ میں جیت کورونا کے نام رہی ہے۔ کورونا کے پھیلنے کے تین ماہ بعد، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ابھی تک کوئی لائحہ عمل یا عالمی قیادت موجود نہیں۔ اقوام متحدہ ہمیشہ سے زیادہ کمزور ہے اور کورونا کے آنے سے پہلے اس کے الجھاؤ کا شکار تھا اور عملی طور پر قرنطینہ میں ہے۔

امریکہ نے ٹرمپ کے حکومت میں آنے کے زمانے سے  ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘  کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بین الاقوامی مسائل کے مقابلے میں قومی لائحہ عمل اختیار کیا ہوا ہے، حتٰی کہ اس نے اپنے اتحادیوں کو بھی پیٹھ دکھائی ہے۔ کورونا بحران کے شروع ہونے کے بعد ٹرمپ نے یورپی ملکوں پر فضائی سفر کا راستہ بند کر دیا اور یورپ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، تاکہ سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی کے اصل معنی اور مفہوم کو دکھائے۔ چین بنیادی طور پر عالمی قیادت کا دعویدار نہیں اور جہاں تک یہ بات ہے کہ کورونا اس ملک سے شروع ہوا، فی الحال وہ الزام کی حد تک ہے۔ چینی حکومت کا اس خطرے کیساتھ برتاؤ کا ردعمل ان کے اس کی شدت اور تمازت کے ادراک کو بیان کرتا ہے۔ یہ ادراک کورونا کے آغاز سے دو ماہ بعد تک امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں موجود نہیں تھا۔

کورونا کی جہتوں اور پھیلاؤ کے حوالے سے ملکوں کے انٹیلی جنس اور فیصلہ سازی کے نظام کی کمزوری پر اعتراض بنتا ہے کہ وہ اس خطرے کی جہتوں اور نتائج کے بارے میں صحیح طور پر پیشنگوئی اور اس کے مقابلے کیلئے اقدام نہیں کرسکے۔ یورپی یونین کہ جس کے بارے میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے فیصلہ سازی کے میکانزم کو مدنظر رکھتے ہوئے متحد ہو کر عمل کرے گی، وہاں سرحدیں بند کر دی گئیں اور ہر کسی نے اپنی پگڑی کو مضبوطی سے پکڑ لیا، تاکہ ہوا اسے اڑا کر نہ لے جائے، یعنی ہر ملک اپنی اپنی نبیڑنے میں لگ گیا۔ لہذا یورپ کے پاس بھی اس خطرے کی موثر تر مینجمنٹ نہیں تھی، چہ جائیکہ وہ ایک عالمی کوشش وائرس کے مقابلے کی سربراہی کو قبول کرسکے۔ جی سیون کی تنظیم امریکہ کی چین دشمنی پر مبنی اپروچ کی وجہ سے اس حوالے سے کہ اس عالمی خطرے سے کیسے نمٹے، کوئی ٹھوس موقف نہ اپنا سکی۔ جی ٹوئنٹی ممالک کی تنظیم نے ایک کمزور سا بیان دینے پر اکتفا کیا اور اس میں بھی چین اور امریکہ کی رقابت محسوس ہو رہی تھی اور چین نے بھی امریکہ پر ملکی مصنوعات کے تحفظ کے معاشی نظام کی حمایت کا الزام لگایا۔

ایران جو کہ ابھی تک کورونا وائرس سے جانی نقصان کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے آگے ہے، وہاں کورونا وائرس سے مقابلہ ترجیح ہے۔ کورونا کے مشترکہ عالمی خطرے کے پھیلاؤ کی بڑھوتری کے باوجود، چین دشمنی، ایران دشمنی، مغرب دشمنی اور امریکہ دشمنی بدستور کورونا بحران سے پنجہ آزمائی کرنے والے ممالک کی پالیسی کا غالب پہلو ہے۔ ظاہری طور پر اس بحران نے بھی عالمی رہنماؤں کو اس عالمی خطرے کے حوالے سے اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے۔ اس موضوع کی اصلی وجہ یہ ہے کہ سب اپنے اپنے پرانے موقف، نقطہ نظر، رقابتوں اور دشمنیوں کے تناظر میں کورونا سے مقابلے کے موضوع کو دیکھ رہے ہیں، اس بات سے غافل ہیں کہ سبھی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ امریکہ میں جن لوگوں میں چین اور ایران کے حوالے سے دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ کورونا کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ اہم ممالک پر ایسے نقطہ نظر اور اپروچ کی حکمرانی کیساتھ، دنیا کو کورونا پر حاصل ہونیوالی وہ کامیابی جس میں اتحاد کا فقدان ہو، اس کی پیشنگوئی کرنا مشکل بات نہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ دشمنی میں گھری ہوئی دنیا اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ کورونا لاکھوں لوگوں کو اپنا لقمہ بنا لے۔

بعض ممالک میں غذائی اشیاء کی برآمدات کے محدود ہونے اور اسی طرح دوسرے ممالک سے ماسک چھیننے کی خبریں آرہی ہیں۔ اس عمل کے جاری رہتے ہوئے، میدان رقابت سیاسی اور جیوپولیٹیکل سے غذائی اور ادویات کی رقابت کے میدان کی طرف پھیل جائے گا۔ اس بحران کے پھیلنے سے ممکن ہے کہ دنیا پانی، غذا اور ادویات کے ذرائع تک رسائی حاصل کرنے کے جھگڑے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اگر دشمنی اور یکطرفہ رحجان پر مبنی اپروچ آگے بڑھتی رہی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ دریائی ڈاکے، قذاقی یا ہوائی ڈاکے کا مشاہدہ کریں۔ یہ لڑائی جھگڑے صرف ملکوں کے درمیان بین الاقوامی جھگڑے نہیں ہونگے۔ بحران کے شدید ہونے سے، سماجی اور سیاسی نظاموں کے ٹوٹنے اور سقوط کرنے کا خطرہ موجود ہے اور ممکن ہے کہ بہت زیادہ تعداد میں حکومتوں کے دیوالیہ ہونے کا مشاہدہ کریں۔ یعنی اس کا مطلب یہ کہ خانہ جنگیوں کے ہونے کے خطرے کا بڑھنا، جو کہ فطری طور پر بیماری پر کنڑول حاصل کرنے کو اور زیادہ مشکل بنا دے گا۔

قوم پرستی ایک عالمی خطرے سے مقابلے کا ایک مناسب طریقہ کار نہیں۔ امریکہ جس کی تین سو تیس ملین کی آبادی میں دو سو ستر ملین لوگوں کے پاس اسلحہ ہے۔ وہاں آٹھ کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو گھنٹے کے حساب سے کام کرنیوالے ہیں اور ان کے پاس بیمار ہونے کی صورت میں ہیلتھ انشورنس بھی نہیں اور ستائیس ملین لوگوں کے پاس انشورنس ہی نہیں۔ یہ ملک امریکہ ایسی حالت میں کیسے لوگوں کو لمبے عرصے تک قرنطینہ میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ امریکہ معاشرے کے مختلف شعبوں کو ریلیف دینے کیلئے ۲/۲ ٹریلین ڈالر کا ایمرجنسی بجٹ منظور کرنے کے باوجود، اسی طرح حملے کی زد میں اور بے دست و پا ہے۔ اگر جس طرح کہ اٹلی اور نیو یارک کی حالت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ یورپ اور امریکہ اپنی میڈیکل اور ہاسپٹلز کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں، آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اس بیماری کے پھیلنے سے باقی دنیا کی ذمہ داری کا کیا بنے گا۔ اگر خصمانہ نگاہیں اور اس سے اٹھنے والے ملٹری بجٹ تھوڑا معتدل ہو جائیں تو دنیا اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ وقت اور فرصت حاصل کرلے گی۔

کچھ لوگ کورونا کے بعد کی دنیا کے حوالے سے تھوڑا پُرجوش واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے ممالک کیلئے کورونا کے بعد پوسٹ کورونا کا بین الاقوامی نظام کورونا سے پہلے پری کورونا کے نظام سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ پری کورونا دور میں متاثرہ ممالک کی نصف فیصد عالمی معیشت، پوسٹ کورونا دور میں تیس فیصد میں تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ بین الاقوامی نظام کے اوپری سرے پر طاقت کی اکھاڑ پچھاڑ ہوگی، نہ کہ نیچے کی طرف۔ دوسری جنگ عظیم میں بہت سے ممالک کا سقوط تیسری دنیا کے ظہور پذیر ہونے پر منتج نہیں ہوا۔ نو آبادیات سے دستبرداری کا عمل اور ملکوں کی نو آبادیات سے آزادی نے جنگ کے بعد بین الاقوامی نظام کی کایا نہیں پلٹی۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں بین الاقوامی نظام کی بناوٹ بھی زیادہ مختلف نہیں ہوگی، مگر ان ممالک کیلئے جو تیزی سے بیماری پر غلبہ حاصل کریں اور اپنی معاشی اور برآمدی گنجائش بڑھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری پر غلبہ پانا فیصلہ سازوں کی ترجیحات میں ہونا چاہیئے۔ اس کام کی شرط لازم یہ ہے کہ دوسری سوچوں اور آپشنز میں کمی لائی جائے۔

ایران دنیا کے غیر مستحکم ترین علاقہ کے مرکز میں واقع ہوا ہے۔ اس بات کا سنجیدہ خطرہ موجود ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلنے سے خطے میں موجود ناقص حکمرانی والی حکومتوں اور خطے کے دوسرے ممالک کو عدم استحکام سے دوچار ہوتا دیکھیں۔ کورونا سے جاری لڑائی کیساتھ ساتھ کوئی ملک اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ دوسرے چند محاذوں پر بھی نبرد آزما ہو۔ کورونا سے مقابلہ پر توجہ مرکوز کرنے اور خطے میں جاری دشمنیوں کے خاتمے کیلئے دوراندیشی اور دگنی کوشش کی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان میڈیکل اور صحت کے شعبے میں تعاون، اعتماد سازی اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے اقدام کیلئے مناسب نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 868370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش