0
Wednesday 15 Jul 2020 12:42

بدترین قتلِ عام، جس میں مرنے والوں کی تدفین 25 سال سے جاری

بدترین قتلِ عام، جس میں مرنے والوں کی تدفین 25 سال سے جاری
تحریر: ندیم رزاق کھوہارا

حکم ہوا کہ تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے، کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سب کے سب مردوں کو اکٹھا کرکے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے۔ "گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا، جو شہر سے باہر جانا چاہے گا، اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔" زار و قطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن وہ سب بے بس تماشائی بنے کھڑے تھے۔ شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان۔۔۔۔۔ جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔ ایک طرف سے آواز آئی فائر۔۔۔۔۔ تڑخ تڑخ تڑخ۔۔۔۔۔۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بیک وقت گونجیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا۔ اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔ اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے، جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئی۔

شیطان کا یہ خونی رقص کچھ دیر تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کو مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑی بڑی قبریں کھود کر پانچ پانچ سو۔۔۔۔۔ ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔ مردوں کے ساتھ زندوں کو بھی دفنا دیا گیا۔ لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔ انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چنگیز ثانی کو چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیئے گئے۔

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی کہانی ہزاروں یا سینکڑوں سال پرانی نہیں۔ نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995ء کی بات ہے، جب دنیا اپنے آپ کو خود ساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی اور یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا اور یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ یوں کہیے ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے، جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا۔

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے، جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں رہتے آئے تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے بغاوت کی۔ اس دوران بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔ اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور قبضے کے فوری بعد ہی مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا، جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔

تیرہ جولائی 1995ء سے تیرہ جولائی 2020ء تک پچیس سال گزر گئے اس واقعے کو۔۔۔۔۔۔ آج بھی مہذب دنیا اس کلنک کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے، جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گرد و نواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں، جن کی کوئی اور کوئی شناخت نہیں۔۔۔۔ ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔ سربرینیکا کا میدان۔۔۔۔۔ جہاں قتلِ عام ہوا تھا، وہاں اب گھاس اگتی اور پھول کھلتے ہیں۔ خاک سے زندگی جنم لیتی ہے۔ مرجھا جاتی ہے۔ لیکن یہاں کی سرسراتی ہواؤں میں آج بھی خون کی مہک آتی ہے۔ گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کی مجرمانہ خاموشی کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی مانگی گئیں۔ مگر
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔۔۔۔

شروع کے چند سال ہنگامہ مچا، لیکن اب یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام بھولتا جا رہا ہے۔ واقعے کو پچیس سال پورے ہونے پر کچھ خبریں چلیں۔ کچھ ڈاکومنٹریز دوبارہ سے دکھائی گئی ہیں اور بس۔۔۔۔۔ خیر غیروں سے کیا گلہ۔۔۔۔ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا؟ دس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہوگا۔ جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہوگا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ان کی اصل اوقات بتاتے رہنا ہوگا۔ یہی ایک صورت ہے، جس سے ہم مسلم نسل کشی کرنے والوں کا مکروہ چہرہ تاریخ کے پنوں پر ہمیشہ کے لیے رقم کرسکتے ہیں۔ اس واقعے میں ہمارے لئے ایک اور بہت بڑا سبق یہ ہے کہ کبھی بھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو۔ یو این کے کیمپوں سے نکال کر نہتے لوگوں کو مارا گیا۔ نیٹو افواج چاہتیں تو سرب جرنیلوں کو قتلِ عام تو کیا اپنی حدود سے بھی باہر نہ نکلنے دیتی۔ لیکن مسلمان ان پر بھروسہ کیے رہے اور بربریت مظلومیت پر حاوی ہوگئی۔ اپنی جنگ اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 874960
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش