0
Sunday 23 Aug 2020 10:33

سعودی نہیں الہیٰ و محمدی نظام ہمارے ایمان کا حصہ ہے

سعودی نہیں الہیٰ و محمدی نظام ہمارے ایمان کا حصہ ہے
تحریر: نصرت علی شہانی

عین اس وقت جبکہ مکروہ ترین امریکی صدر، حجازِ مْقدس پر قابض آلِ سعود کو اسرائیل تسلیم کرنے کی ہدایات دے رہا ہے اور ہمارے اِس سعودی ’’دیرینہ دوست‘‘ نے ہمارا بازو مروڑ کر وہ قرض بھی مع سود واپس لے لیا ہے، جس کی اس انداز میں ادائیگی ہم پہ واجب بھی نہیں تھی، روزنامہ جنگ نے 22 اگست کو افضال ریحان کا سعودی عرب کو ایمان کا حصہ قرار دے کر غیر اسلامی شہنشاہیت کی خوشامد اور وفاداری پر مشتمل کالم شائع کر ڈالا۔ اگر کالم نگار کو ’’ایمان‘‘ کی اہمیت و عظمت کا اندازہ ہوتا تو عنوان بدل دیتے۔ شاید ان کے نزدیک ٹرمپ کے یہودی داماد کے قریبی دوست سعودی ولی عہد بن سلمان ایمان کے اعلیٰ درجات پر فائز ہیں، جن سے وفاداری کا کالم لکھا گیا۔

کالم کے آغاز میں ہی ہماری پارلیمانی تاریخ کے اُس تاریخی فیصلے پر تنقید سے کالم نگار کے ’’ایمان‘‘ کا اندازہ ہو جاتا ہے، جب پارلیمنٹ نے یمن کے مظلوم مسلمانوں کے ناحق خون میں پاک فوج کے ہاتھ نہ رنگنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی 22 کروڑ عوام کے نمائندہ اراکین ِ پارلیمنٹ کا ایمان افضال صاحب کے نزدیک بہت کمزور ہے۔ واضح رہے کہ سعودی نہیں بلکہ الہیٰ و محمدی نظام ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ارضِ مقدّسِ حجاز وہ بابرکت سرزمین ہے، جہاں وحی نازل ہوئی، جہاں کعبہ ہے۔ جہاں رسول اکرمﷺ نے اپنے اہلبیتؑ و باوفا اصحاب ؓ کے ساتھے 23 سال تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی، جسے قیامت تک قائم رہنا تھا، لیکن غاصب سعودی خاندان نے اللہ و رسول کا نظام کُجا، اس سرزمین کا نام تک بدل ڈالا اور رسول اکرم، اُن کے اہلبیتؑ یا کسی صحابی ؓکی بجائے اپنے نام سے منسوب کر دیا۔ جوش جیسے رِند کو بھی اتنا ادراک تھا کہ:
اِسلام کا شاہی سے تعلق کیا ہے؟

کردار اور نظام ایمان کا حصہ بنتا ہے، ورنہ یہی حجاز ایک عرصہ تک بت پرستی اور کفر کا مرکز تھا، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے طفیل اسے رحمتوں کا مرکز بنایا تو ہر مسلمان کے ایمان کا مرکز قرار پایا۔ اب اس سرزمین پر قابض آلِ سعود سو فیصد امریکی ایجنٹ اور اسرائیلی مفادات کے نگہبان ہیں، لہٰذا اب ان کی خوشامد اور وفاداری نہیں بلکہ ان سے اظہارَ برات ایمان کی علامت ہے، کیونکہ یہ حکومت طاغوت کی فرماں بردار ہے۔ آیت الکرسی میں واضح حکم ہے کہ طاغوت کا انکار کیا جائے۔ استعمار کے غلام ’’آلِ سعود‘‘ خاندان نے اس پاک سرزمین پر اپنے غاصبانہ قبضے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلّمہ اسلامی مسالک میں تفریق پیدا کرنے کے لئے اپنے آقائوں کے حکم پر ’’وہابیّت‘‘ کی سرپرستی کی، جس نے جنت البقیع ویران کرنے سے لے کر بے گناہوں کا خون بہانے تک کی ہر قسم کی شدت پسندی کا جواز پیش کرکے رحمت و رافت کے دین اسلام کو بدنام کیا۔( مبیّنہ طور پر بن سلمان نے بھی وہابیت کی بنیادوں سے متعلق تلخ حقائق کا اعتراف کیا ہے)

کالم نگار نے ’’مشہد مقدس‘‘ والوں کے گرد تنگ ہوتے گھیرے سے بھی قوم کو ڈرایا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ہمارے ان ہمسایوں نے اسلامی غیرت کے عین مطابق طاغوت و استعمار کے غرور کو خاک میں ملایا اور ایمان، تقویٰ، اپنے وسائل پر بھروسہ، خود مختار پالیسیوں کی بدولت سربلند ہیں جبکہ ہم ’’ڈو مور‘‘ کی ذلّت برداشت کرنے کے باوجود حیران و پریشان ہیں۔ جہاں تک کالم نگار کی اپنی ممدوح شہنشاہیت کی ناراضگی کے نتیجہ میں 22 کروڑ ہموطنوں کی غربت سے لاحق پریشانی کا تعلق ہے تو انہیں اپنے ’’ایمان‘‘ کی تقویت کے لئے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ ہر ذی روح کے رزق کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے۔ ہماری اقتصادی بدحالی کے زیادہ تر عوامل داخلی ہیں۔

پھر یہ کہ ہر حال میں آسایش و خوشحالی مطلوب نہیں ہوتی، عزت کی زندگی، سربلندی، خود مختاری۔۔۔ ڈالروں اور ریالوں کی اُس بھیک و بخشیش سے ہزار درجہ بہتر ہے، جن سے بقول اقبال پرواز میں کوتاہی آتی ہو۔ ہر حال میں ظاہری آرام و آسائش خالصتاً مادّی و غیر اسلامی نظریہ ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا، خدایا مجھے ان عورتوں کے مکر کا شکار ہونے کے مقابلہ میں قید خانہ زیادہ محبوب ہے۔ ہم تو شعبِ ابی طالب کے وارث ہیں، جہاں ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرتے ہوئے دنیاوی آسائشوں، نعمتوں کو ٹھکراتے ہوئے حضرت خدیجہ جیسی مالدار ترین خاتون بھی کئی شب و روز فقط کھجور کے ایک دانے پر قناعت کرتی ہیں۔ یہ ہے ایک مسلمان کے ’’ایمان‘‘ کا معیار جناب افضال ریحان صاحب!!!۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 881987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش