1
16
Wednesday 2 Sep 2020 03:09

جاوید چوہدری صاحب پلیز سن لیں

جاوید چوہدری صاحب پلیز سن لیں
تحریر:  محمد سلمان مہدی

جاوید چوہدری صاحب ایکسپریس نیوز چینل کے پروگرام کل تک کے میزبان ہیں۔ اسی میڈیا گروپ کے روزنامہ ایکسپریس میں وہ ایک کالم نگار کی حیثیت سے ملکی و بین الاقوامی معاملات پر بھی باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ ماہ اگست 2020ء میں ان کے آخری تین کالم میں بات کو گھما پھرا کر مسئلہ فلسطین میں اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے حق میں حقیقت سے متصادم جھوٹی تاریخ اور غیر منصفانہ نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیسا کہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر بعنوان بات اسی طرف جا رہی ہے، ان کا ایک کالم 25 اگست 2020ء کو آیا۔ انہوں نے بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی کو خلافت عثمانیہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حضرت جاوید چوہدری صاحب پاکستان موہن داس کرم چند گاندھی کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے نہیں بنایا تھا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کی قیادت میں جدوجہد کرکے حاصل کیا گیا۔ جی یہ مسلم لیگ کہ جس کے رہنماء محمد علی جناح اور علامہ اقبال بھی تھے اور ان کا تحریک خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ غیر منقسم ہند کی تاریخ دوبارہ پڑھیے، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ تحریک خلافت کی حمایت کرنے والوں میں کون کون شامل تھے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ غیر منقسم ہند کے قابل ذکر مسلمان رہنماؤں اور مسلمانوں کا اجماع اس بات پر تھا کہ فلسطین عرب اکثریتی علاقہ ہونے کے ناطے عرب ملک ہے اور اس پر یہودی ریاست کا دعویٰ غلط ہے اور تحریک خلافت کی حمایت گاندھی جی باپو نے بھی کی تھی۔ لیکن خلافت عثمانیہ کے دفاع میں چلائی گئی تحریک خلافت سے آل انڈیا مسلم لیگ، علامہ اقبال اور بابائے پاکستانی قوم بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے جاوید چوہدری کا یہ دعویٰ کہ فلسطین کے ایشو پر ہم ترکی کے ساتھ کھڑے ہوگئے، غلط بیانی ہے۔ بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی سو فیصد جمہوری اور عادلانہ و منصفانہ اصولوں پر مبنی رہی ہے۔   دوسری بات یہ کہ بہت واضح نکتہ یہ ہے کہ اگر فلسطین کو ہم ترکی کا حصہ مانتے ہوتے تو علامہ اقبال یہ کیوں کہتے کہ "ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق، ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا۔" ان کو تو کہنا چاہیئے تھا کہ ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل ترکی کا۔

بانیان پاکستان نے فلسطینی عربوں کی اس ریاست پر سارے عربوں کا نہیں بلکہ فلسطینی عربوں کے حق کا دفاع کیا۔ برصغیر کے مسلمان اس وقت نجد کے وہابی بادشاہ عبد العزیز آل سعود کے بھی سخت خلاف تھے، کیونکہ اس نے وہابی فسادی ملاؤں کو ساتھ لے کر حجاز مقدس پر لشکر کشی کی تھی۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان میں مساجد اور مزارات مقدسہ کو منہدم کرنے والے اور مکہ مکرمہ میں بھی ایسا ہی سانحہ برپا کرنے والوں کے خلاف غیر منقسم ہند کی مسلمان قیادت نے کھل کر مذمت کی اور احتجاج کیا تھا۔ تو فلسطین پالیسی کو سعودی عرب سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا اور متحدہ عرب امارات یا بحرین کی تو اوقات ہی کیا ہے، اس وقت دنیا کے نقشے پر ان کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ بانیان پاکستان نے نہ تو کسی بھی عرب ملک کی محبت میں اور نہ ہی کسی غیر عرب ملک کی دیکھا دیکھی یہودی ریاست کی مخالفت کی۔ جو ترک خلافت عثمانیہ کے حامی تھے، وہ محمد علی جوہر صاحب تھے، جن کی وصیت تھی کہ انہیں بیت المقدس میں دفن کیا جائے۔ قائد اعظم کی زندگی ہی میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوچکا تھا۔ ری پوزیشن کرنا ہوتا تو کرچکے ہوتے۔ چلیے چھوڑیئے اس کو، کیا لیاقت علی خان تحریک پاکستان کے رہنما نہیں تھے؟ کیا خواجہ ناظم الدین نہیں تھے؟ ری پوزیشن نہیں کیا تو نہیں کیا۔   اب یہ خوامخواہ کا دعویٰ اور اس کی بنیاد ترکی، یہ تاریخی اسناد اور واقعات کی بنیاد پر جھوٹ پر مبنی تکا ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

جاوید چوہدری صاحب کفر اور اسلام کا ایشو نہ سہی، اس سفارتی اور سیاسی ایشو کی اہمیت مذہب ہی کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ سرزمین انبیائے خدا ہے اور یہیں بیت المقدس بھی ہے۔ اس لیے مذہب کو تو مائنس کیا ہی نہیں جاسکتا۔ سیاسی اور سفارتی لحاظ سے بھی بات کی جائے تو دنیا میں جس انٹرنیشنل لاء کے تحت کوئی ملک قائم کیا جاسکتا تھا، وہ وہاں کی مقامی آبادی کو حق تھا۔ یہ تو جمہوری اصولوں اور انٹرنیشنل لاء کو پامال کرکے بنایا گیا۔ اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے والے بانیان اسرائیل میں صرف ایک فلسطینی یہودی تھا، باقی سارے غیر ملکی یہودی تھے۔ اس طرح تو ہم بھی جا کر مکہ مدینہ اور فلسطین میں ملک بنالیں تو کیا مان لیا جائے گا؟  یہ غیر ملکی یہودیوں کو کس قانون اور اصول کے تحت یہ حق مل گیا کہ وہ دنیا بھر سے جمع ہوں اور اقلیت میں ہوتے ہوئے غالب اکثریت کی سرزمین پر ملک بنالیں۔ ابھی تو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے متنازعہ کشمیر میں ڈومیسائل کا قانون تبدیل کرکے غیر کشمیری بھارتیوں کو وہاں کا مستقل شہری قرار دینے کا آغاز کیا ہے تو کیا پاکستان کے دفتر خارجہ نے مان لیا؟ کشمیر تو ایک قدیمی ملک ہندستان کا ایک علاقے پر قبضہ ہے، اسرائیل تو سو فیصد ناجائز قبضہ گروپ ہے، بولے تو لینڈ مافیا۔

چلیے آگے بڑھیے۔ اب جاوید چوہدری صاحب نے مثال یہ بھی دی ہے کہ مسلمانوں نے 14 سو سال میں عیسائیوں سے طویل جنگیں لڑیں اور یہودیوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ اس مثال سے تو انہوں نے خود ہی کفر و اسلام کا ایشو پیدا کر دیا۔ لیکن ایسا کیوں کیا، اس لیے کہ عرب کوئی مذہبی شناخت نہیں ہے بلکہ نسلی شناخت ہے اور عرب سے مراد مسلمان اور عیسائی دونوں ہوتے ہیں۔ تو یہ مثال فلسطینی عربوں کو کیوں دے رہے ہیں، یہ سعودی عرب، ترکی، مصر، اردن وغیرہ سب کو دیں اور کہیں کہ لڑیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں لکھیں گے، اس کی بھی وجہ ہے۔  البتہ سمجھنے کے لیے صرف اتنا عرض کر دوں کہ 14 سو سال میں یہودیوں کی بین الاقوامی سطح پر اتنی بڑی حکومت ہوتی تو مسلمانوں سے لڑائی بھی ہوتی اور پاکستان میں سعودی اور اماراتی حکومت کے ثناء خواں مولوی اور مذہبی جماعتوں کو بھی خلافت راشدہ بہت پسند ہے اور خاص طور پر دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب کے تو سبھی گن گاتے ہیں۔ ان کا ایک لقب فاتح بیت المقدس بھی ہے۔ اس بیت المقدس یروشلم کو حضرت عمر کے دور میں مسلمان فوج نے فتح کیا تھا۔ البتہ اس وقت بھی عیسائی حکمران تھے، یہودی تب بھی حکمران نہیں تھے۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان میں خلفاء کا نام استعمال کرنے والے فاتح بیت المقدس خلیفہ کی سنت پر کب عمل کریں گے، کب افغانستان کی طرح وہاں بھی جائیں گے؟ جاوید چوہدری صاحب نے افغانستان میں امریکی ڈالر لے کر لڑنے والے پاکستانی ملاؤں مذہبی جماعتوں کی مثال بھی دی ہے۔ اس کا جواب تو جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق، جے یو آئی کے فضل الرحمان، سمیع الحق کے جانشینوں پر، مفتی رفیع عثمانی دیوبندی پر اور مولوی لدھیانوی اور ان کی بچہ پارٹی پر قرض ہے۔ انہیں جواب دینا چاہیئے۔

جہاں تک بات ہے سفارتی و سیاسی ایشو کی تو مزید سنیے کہ ترکی، شاہ ایران، مصر، اردن سمیت جس نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا، تو کیا اس کے تسلیم کرنے کے بعد فلسطینیوں کو حق ملا؟ کیا بیت المقدس سے غیر قانونی اسرائیلی قبضہ ختم ہوا؟ اسرائیل ایک ناجائز اور جعلی ریاست ہے، جو عرب فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے کا نام ہے اور اس کے بانیان قوم میں سارے غیر ملکی یہودی تھے۔ سیاسی و سفارتی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں نسل پرستی ممنوع ہے اور جنوبی افریقہ کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا تھا۔ حالانکہ جنوبی افریقہ کے معاملات سے زیادہ شدید اور نفرت انگیز نسل پرست اسرائیل ہے اور اسے بھی رسمی اور سرکاری طور پر نسلی ریاست قرار دیا جاتا رہا اور چند مسلم ممالک سے تسلیم کروا کر اسے اس زمرے سے 1990ء کے عشرے میں نکالا گیا۔ اب اسے یہودی نسلی ریاست یا جیوش اسٹیٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں رائج قانون کے مطابق بھی اس کا بیت المقدس پر قبضہ غیر قانونی ہے، اس کی نسلی یہودی بستیاں بھی غیر قانونی ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے دیگر عرب ممالک میں فلسطینی مہاجر کیمپ چونکہ اقوام متحدہ کے ادارے نے بنائے ہیں، اس لیے 1948ء، 1967ء اور 1973ء میں دربدر خاک بسر ہونے والی شناخت رکھی گئی ہے اور سیاسی و سفارتی لحاظ سے بھی ان کا انکے اپنے وطن واپسی کا حق دنیا کی کوئی عدالت مسترد نہیں کرسکتی۔ پوری دنیا سے نسل پرستی کی بنیاد پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا حق دینے والے فلسطین کے اپنے اصلی باشندوں کا حق واپسی تسلیم نہیں کرتے اور جاوید چوہدری صاحب نے پوری محنت کی کہ غیر منطقی و غیر مدلل تحریر کے ذریعے ظلمت کو ضیاء اور صر صر کو صبا بنا کر پیش کریں۔ دلیل چاہیئے میرے عزیز، بات اس طرف نہیں جا رہی اور نہ ہی کوئی بند گلی ہے اور پلیز یہ سن لیجیے۔
خبر کا کوڈ : 883726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام سلمان بھائی، بہت اچھا جواب دیا ہے جاوید چوہدری کو۔ میں تو ان کے کالم پڑھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس چوہدری کو اسرائیل کی حمایت کرنے کے کتنے پیسے ملے ہوں، جو یہ پاکستان میں اسرائیل کی حمایت کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔ اور بھی دوستان کو جو فلسطین اور پاکستان کی سیاست پر نطر رکھتے ہیں، ان کو جاوید چوہدری کو جواب دینا چاہیئے، تاکہ اسلام کا بول بالا ہو اور دشمنان اسلام کا منہ کالا ہو۔
زندہ باد سلمان بھائی سلامت رہیں۔
ہماری پیشکش