1
0
Saturday 19 Sep 2020 09:21

فرقہ واریت کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر

فرقہ واریت کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر
تحریر: نذیر بھٹی

میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کہ یزید کی حمایت میں پاکستان کی سڑکوں پر ریلی میں نعرے لگ سکتے اور تقریریں بھی ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کا کوئی بھی مکتبہ فکر، یزید کی حمایت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کون نہیں جانتا کہ یزید وہ حکمران تھا، جس نے نواسہ رسول، حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں شہید کروایا، خانہ کعبہ کو آگ لگائی، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے، شہر نبی میں خواتین کی عصمت دری ہوئی۔ حیرت ہے کہ اس کی مدح سرائی بھی شروع ہوگئی ہے۔ میرے لئے یہ بات بھی ناقابل قبول ہے کہ ایک شخص صحابہ کرام کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر دے اور خود برطانیہ جا بیٹھے اور ریاستی ادارے اسے نہ روک سکیں۔ اس کے بعد سے پاکستان میں اس کی لگائی چنگاری سے سوشل میڈیا پر لڑائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ مبینہ طور پر اسی کشیدگی سے جڑے ہنگو، کوہاٹ، پھالیہ، اسلام آباد میں اہل تشیع مکتبہ فکر کے افراد کا قتل اور شاہدرہ لاہور میں جلوس پر فائرنگ کا واقعہ ہوچکا ہے

ان واقعات کا تعلق فرقہ واریت سے جوڑا جا رہا ہے، کیونکہ اب تک ایک ہی مسلک کی پیروی کرنیوالے افراد کو قتل کیا گیا اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اس وقت ہی کیوں شروع ہوا، جب اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے امریکہ اپنے عرب دوست ممالک سے دباو کے ذریعے حمایت حاصل کر رہا ہے۔ ان حالات کو تاریخی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں شیعہ سنی اختلافات آج کا نہیں، صدیوں پرانا قصہ ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ شدید اختلافات کے باوجود دونوں مکاتب فکر اپنے اپنے دلائل کیساتھ چلتے آرہے ہیں، لیکن ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔ تاوقتیکہ پاکستان میں ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران جہاں ایم کیو ایم جیسی لسانی دہشتگرد تنظیموں نے جنم لیا، وہیں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد جیسی تنظیموں نے بھی سر اٹھایا۔ جس کے نتیجے میں کیا ہوا؟ پاکستان کی فرقہ وارانہ تاریخ گواہ ہے کہ اس دورانئے میں وہ مسلکی تصادم ہوا کہ آنیوالی نسلوں نے اسے بھگتا اور پاکستانی اب تک اسے بھگت رہے ہیں۔

صاحبانِ عقل و دانش، اس وقت بھی کہتے تھے کہ جہاد افغانستان میں ایک ہی مسلک کی تنظیموں کو استعمال کیا گیا۔ اسی مسلک کے مدرسے کے طلبہ کو مجاہد بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور پھر یہی مجاہدین دہشتگرد قرار پائے اور ملک و قوم اور مسلک کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ موجودہ کشیدگی بتا رہی ہے کہ حالات ایسے نہیں کہ فرقہ واریت ایک دم پیدا ہوئی ہے۔ اس کے پیچھے بڑی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ چند ماہ قبل ایک خاتون وکیل نے فدک کے واقعہ کی طرف ایک نجی ٹی وی چینل پر اشارہ کیا تو ایک شخص کراچی سے اسلام آباد پہنچا اور اس چینل کیخلاف درخواست جمع کروانے کے بعد پیمرا کے دفتر کے باہر کھڑے ہو کر اپنے اسلام آباد میں رہنے والے ہم مسلکوں کو خوب کوسنے لگا کہ مخالف فرقے کیخلاف تم نے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ پھر کورونا وائرس کے دنوں میں یوم شہادت علیؑ کیخلاف بھی اسی طرح کی ویڈیو اسی شخص نے تیار کی، پاراچنار کے حساس حالات پر بھی اپنے فرقہ وارانہ خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پھر کیا ہونا تھا؟ حالات خراب ہوئے۔

رمضان المبارک آیا تو دو نجی ٹی وی چینلز پر انتہائی حساس فرقہ وارانہ موضوعات پر ٹاک شوز میں گفتگو کی گئی، جس سے فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی گئی، کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ہر ملک میں ذرائع ابلاغ قومی اتحاد و وحدت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے قومی مشترکات اور مختلف مذہبی لسانی اور مسلکی شہریوں کو جوڑنے کی بات کی جاتی ہے۔ سماجی سانجھ پن کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی طبقے کی تحقیر یا توہین نہیں کی جاتی۔ مگر افسوس دو میڈیا ہاوسز نے فرقہ واریت کو پھیلایا۔ پھر یہ معاملہ یہیں نہیں رکا۔ شیعہ مسلک کے دو تین متنازعہ کرداروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان سے گستاخانہ گفتگو کروائی گئی، جس سے کشیدگی میں بے انتہا اضافہ ہوگیا۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ محرم الحرام سے پہلے پانچ مقررین کیخلاف اہل تشیع کی درخواست پر کمشنر اسلام آباد نے ان پر پابندی عائد کی۔ مگر سمجھ نہیں آتا کہ وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور مشیر وزیراعظم زلفی بخاری کی مداخلت سے یہ پابندی کیوں اُٹھا لی گئی اور انہوں نے ان متنازع کرداروں کیساتھ تصویریں بنوائیں۔ پھر ان میں سے ایک مقرر نے تو ایسی غلیظ گفتگو کی کہ اسے دہرایا نہیں جا سکتا۔ پھر بات یہیں تک نہیں رکی، اشتعال انگیز باتیں کرنیوالا ملک میں آگ لگا کر خود برطانیہ چلا گیا اور بقول علامہ شیخ محسن علی نجفی لاہور سے افرادی قوت کو لایا گیا اور اسلام آباد میں یہ پروگرام رکھوایا گیا۔ جس میں اس شخص نے متنازعہ تقریر کی، جس کی وجہ سے تصادم یقینی تھا۔

ہمارا سوال ہے وزیراعظم سے کہ وہ اپنے وزیر اور مشیر کی فرقہ پرستوں سے ہمدردی کا نوٹس لیں گے؟ تحقیقات کروائیں گے؟ اور قوم کو بھی حالات و واقعات سے آگاہ کریں؟ اسی طرح یہ شخص گورنر پنجاب سے بھی ملاقاتیں کرتا رہا ہے۔ اس کے تعلقات کو بھی دیکھا جائے کہ ہم اپنے ہی گھر کو آگ لگانے کیلئے استعمال تو نہیں ہو رہے۔ کیونکہ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا اجمل خان، قاضی حسین احمد، علامہ پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد علی نقوی کی کاوشوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو کشیدگی میں بدل دیا گیا ہے تو کیوں؟ اس لئے کہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان بھی ریلیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ اب جبکہ فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے تو قومی قیادت کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ قرآن و حدیث کا درس اتحاد اور وحدت کا ہے۔

قرآن مجید کا پیغام اسلام، امن اور باہمی برداشت ہے۔ قرآن تو دوسرے مذاہب کا بھی وجود تسلیم کرتا ہے تو ایک قبلہ، ایک خدا، ایک نبی، ایک قرآن اور محبت اہلبیت اطہار و صحابہ کرام کا مشترکہ سرمایہ رکھنے والے سنی شیعہ ایک دوسرے کا وجود کیوں نہیں تسلیم کرسکتے جبکہ تحریک آزادی پاکستان ہو، تحریک ختم نبوت ہو یا مارشل لاوں کیخلاف سیاسی جدوجہد ہو، آئین میں اسلامی دفعات ہوں، 31 علماء کے 22 نکات ہوں، سنی شیعہ کی سنجیدہ قیادت ایک پلیٹ فارم پر نظر آتی ہے۔ یہی وہ اتحاد امت ہے، جو دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لئے آج پھر اسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کیخلاف اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی بجائے، لوگوں کو جوڑنے کی طرف توجہ دیں، کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 887138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan

Saturday 19 Sep 2020 09:21
فرقہ واریت کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر
تحریر: نذیر بھٹی
کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
بھائی میں آپ کی کاوش کو سراہتا ہوں لیکن ایک گلہ ہے کہ ہم یمن کے مظلوموں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔
سب سے بڑی نسل کشی تو ان کی ہو رہی ہے۔
ہماری پیشکش