0
Thursday 8 Oct 2020 10:22

سورہ حجرات کی چند آیتیں اور موجودہ دور میں معاشرہ سازی(1)

سورہ حجرات کی چند آیتیں اور موجودہ دور میں معاشرہ سازی(1)
تحریر: فدا حسین بالہامی

اسلام دین معاشرت ہے اور قرآن ایک معاشرہ ساز کتاب ہے۔ جس میں معاشرہ سازی کے ہمہ جہت اور آفاقی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ یوں تو قرآن میں جا بجا معاشرتی اخلاق و اقدار کو وضع اور بڑے ہی موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن سورہ حجرات میں چند ایک ایسے حساس اور دقیق معاشرتی اخلاق کا تذکرہ ہوا ہے کہ جن کی اس دور میں ایک مسلمان بلکہ ہر انسان کو نہایت ہی ضرورت ہے۔ اگر ان چند آیات کو مدنظر رکھ کر معاشرتی اصلاح کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت سی سماجی بیماریوں کا علاج خود بخود ہوگا۔

اتباع رسول قرآن کریم کا تقاضا:
کسی بھی معاشرے یا قوم کی شیرازہ بندی کے لئے دو چیزیں نہایت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ایک ضابطہ حیات اور دوسری کوئی ایسی صالح قیادت جو اس ضابطہ حیات کا عملی نمونہ ہو۔ خوش قسمتی سے مسلمانوں کو قرآن کی شکل میں ایک کامل اور بے نظیر ضابطہء حیات نصیب ہوا اور رسول اکرم کی صورت میں ایک اسوہء کاملہ بھی انہیں پروردگار کی طرف سے انہیں عطا کیا گیا۔ ان دو عظیم نعمتوں کا شکر جتنا بھی کیا جائے کم ہے اور حق تو یہ ہے کہ نہ صرف پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت اس حوالے سے خالق کائنات کی احسان مند ہے اور اس کا بدلہ چکانے سے قاصر ہے۔ یہ دونوں نعمتیں ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں، ایک دوسرے کی محافظ و پاسدار بھی۔ اس لحاظ سے قرآن معرفت رسول کا حقیقی اور ابتدائی سرچشمہ ہے اور پیغمبر اکرم معارف القرآن کا اصلی ماخذ ہے۔ رسول اکرم کی ذات مقدس ہی ہے کہ جس نے سب سے گراں امانت الٰہی کو اپنے قلب مبارک میں سمویا اور پھر اس کے حیات بخش پیغامات کو بحسن خوبی عالم انسانیت تک پہچایا اور اس طرح ایک فرستادہ رب العالمین ہونے کی حیثیت سے بطریق احسن حق ادائی کی اور قرآن پاک نے بھی رسول پاک کی شرف و بزرگی کو جگہ جگہ ظاہر کیا۔

زیر نظر سورہ میں بھی قرآن کریم کی ابتدائی آیات میں رسول اکرم کی تعظیم و تکریم کا مومنوں کو احساس دلایا گیا ہے اور بارگاہ رسالت مآب میں باریابی کے آداب سے بھی روشناس کرایا گیا ہے۔ چنانچہ اس سورہ کے آغاز میں ہی اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے کہ اے ایمان والو خبردار! خدا اور رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے(ترجمہ از انوار القرآن۔۔ علامہ جوادی) بات آگے نہ بڑھانے سے یہاں مراد اپنی تمام تر خواہشات، تمائلات، رجحانات، جذبات کو احکام الٰہی، سیرت نبوی اور فرمان رسول اکرم کے تابع رکھنا ہے۔ اس آیت میں اپنی سوچ و فکر کو قرآنی تعلیمات اور افکار نبوی کے سائے میں پروان چڑھانے کا تقاضا ہو رہا ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ اور رسول اللہ کی نسبت کسی بھی عملی یا نظری پیش قدمی سے ہر مومن کو روکا گیا ہے۔ البتہ یہاں پر اولیت عقل و شعور کی پیروی کو ہی ہے، کیونکہ اتباع کی ابتداء بھی انسان کے قلب و ذہن سے ہی ہوتی ہے اور بغاوت و سرکشی کا سازشی تہہ خانہ بھی یہی عقل و دل بنتا ہے۔ جہاں خفیہ طور پر ایک کھلی بغاوت کی سازش رچائی جاتی ہے اور بعد میں یہی سازش سرکشی کا روپ دھار کر اعضاء و جوارع سے ظاہر ہوتی ہے۔

محبت۔۔۔ سرچشمہء اطاعت:
بہر صورت اہل ایمان کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ ان جنگلی جانوروں کے جھنڈ کی طرح نہیں رہ سکتے ہیں کہ جو ایک ساتھ ہونے کے باوجود بھی کسی بھی سردار و امیر کے تابع نہیں ہوتے، جس کا دل چاہے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے وہ کہیں بھی منہ مار سکتا ہے۔ کسی بھی حرکت سے کوئی چیز اسے مانع نہیں ہوتی، بلکہ مومنوں کی پیش قدمی رسول اسلام کے نقش قدم پر ہی ہونی چاہیئے۔ جو دائرہ عمل اللہ اور رسول اللہ نے ایک مومن کے لئے متعین کر رکھا ہے، اس کے باہر ایک قدم بھی دھر کر وہ ایمان کی نعمت سے محروم ہوسکتا ہے۔ رسول اللہ کی سیرت ہمہ جہت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اس لئے آپ کی پیروی ہمہ گیر ہونی لازمی ہے۔ یہ اطاعت و تعمیل صرف عبادی، ذاتی اور مذہبی امور تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہماری معاشرت، سیاست، طرز حکومت نیز آپسی تعلقات و معاملات بھی متذکرہ دائرہ سے خارج نہیں ہوسکتے ہیں۔

یہاں پر یہ نکتہ قابل بیان ہے کہ اطاعت رسول محبت رسول کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ اطاعت کسی حکیم یا ڈاکٹر کے نسخے پر عمل کرنے جیسی نہیں ہے کہ آپ کو محض نسخے پر عمل کرنا ہے، یہ جاننے کی آپ کو چنداں ضرورت نہیں ہے کہ یہ حکیم و ڈاکٹر کون ہے، وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی بود و باش کیسی ہے اور اس کے معاملات کس نوعیت کے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔؟ یہاں پر اس نکتے کو ضبط تحریر کرنے کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ مسلمانوں میں دو ایک ایسے گروہ بھی پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے اطاعت پیغمبر اور عشق محمد کو دو الگ الگ خانوں میں بزعم خود بانٹا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے مابین تفریق و اختلاف کا شائبہ کرنا بھی نقص ایمان کی علامت ہے۔ لیکن بدقسمتی ان دو گروہوں میں سے ایک کا یہی خیال ہے کہ آنحضرت محض شریعت اسلامی لانے والے تھے، آپ نے شریعت ہم تک پہنچائی۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اب ہمارا کام شریعت کی پیروی کرنا اور بس۔

اس گروہ سے وابستہ افراد کے پاس جذبات و احساسات سے عاری تصور دین رہ جاتا ہے۔ جو انہیں “میکانکی دیندار” اور “تکنیکی عبادت گزار” تو بنا سکتا ہے۔ لیکن ان میں وہ سوز و گداز اور درد دل پیدا نہیں کرسکتا، جو عشق کا خاصہ اور روح دین ہوا کرتا ہے۔ یہ چند ایک عبادات و اعمال اور ایک مخصوص طرز عبادت کو ہی دین کی ابتداء و انتہاء سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ یہ سر بہ سجود بھی ہوتے ہیں اور قیام و رکوع بھی کرتے ہیں، لیکن کچھ اس انداز سے کہ جسے کوئی لوہے اور پلاسٹک سے بنی مشین کسی کام کو سرانجام دینے کے لئے مختلف حرکتوں کے ذریعے اپنی حالت بدلتی رہتی ہے۔ گویا ان کے اعضاء و جوارح مشینی کَل پرزوں کی طرح ہی عبادت میں ہی سہی حرکت کرتے ہیں۔ چنانچہ مشین کسی جذبے کے تحت نہیں چلتی ہے بلکہ ایک تکنیکی نظام کے جبر کے تحت کام کرتی ہے اور یوں ہی یہ خشک پوست زاہد پیدائشی اعتبار سے کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر دلگداز کیفیت سے مبرا عبادت و طرز عبادت کو ہی اسلام کامل سمجھتے ہیں۔

یہ سحر خیزی تک ہی خود کو محدود کرتے ہیں اور”“آہ سحر گاہی” سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ یہ سنت پیغمبر محض زندگی کا معمول بناتے ہیں۔ مگر اسے محبت رسول کے ساتھ آمیختہ نہیں کرتے ہیں، بلکہ ایک عادت کے طور اپناتے ہیں، محبت آمیز اتباع سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اس طرح کی روش زندگی میں قلبی اور معنوی کیفیت کی بجائے ذہنی کاوش کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق محبوب میں ان کے دل سوزاں و تپاں ہیں، نہ ان کی آنکھ اشک فشاں اور نہ ہی وصال حبیب کبریا کے تصور کی حلاوت سے ان کی روح آشنا ہے۔ المختصر بقول علامہ اقبالؒ
دلے دارند والے محبوبے نہ دارند
دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جن کے نزدیک ان کا خود ساختہ تصور عشق ہی باعث نجات ہوگا، چاہے وہ شریعت سے نابلد ہی کیوں نہ ہوں اور اپنی زندگی خلاف شریعت ہی بسر کیوں نہ کریں۔ وہ عشق رسول کے دعوے دار تو ہیں، مگر وہ خود کو ہر طرح کی پابندی سے ماوراء گردانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد مصطفیٰ کا نام لیوا ہونا کافی و وافی ہے۔ چاہے پھر ان کا کردار جیسا تیسا ہی کیوں نہ ہو، وہ رستگار ہوں گے۔ ان کے عشق بلاخیز کے سامنے شریعت کی حدیں پائمال کیوں نہ ہو جائیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ بے عمل عاشق عملی اتباع سے معّریٰ ہیں۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع تصور اطاعت ہو، جس کے مطابق عشق رسول ہی اطاعت رسول کا اصل محرک ہو اور یقینی طور پر وہی اطاعت دیرپا ثابت ہوتی ہے، جس میں اطاعت گزار اس کی اپنی مثالی شخصیت کا گرویدہ ہو اور دعوائے محبت جستجوئے اطاعت کے بغیر بے معنی ہے۔ کیونکہ کسی کی پیروی دو ہی صورتوں میں ممکن ہے یا تو یہ پیروی اور فرمانبرداری جبراً کرائی جاتی ہے یا اس کے پیچھے انتہائی ادب و احترام اور محبت و ولایت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس کے ساتھ والہانہ لگاو اہل ایمان کا جزو ایمان ہے، اسی تعلق خاطر نے ہی امت کو ایک مرکز و محور عطاء کیا ہے اور افراد امت کے مابین کشش و انجذاب کا ایک نظام قائم ہے اور آپسی محبت و یگانگت کی ایک زیریں لہر وجود میں آئی ہے اور یقیناً اسی انجذابی کیفیت پر حیات ملت موقوف ہے۔ بقول حکیم الامت
قوم را سرمایہ قوت از او
حفظ سر وحدت ملت ازو
معنی: یہ انہی (محمد) کی ذات مبارکہ ہے کہ جو قوم کے لئے سرچشمہء قوت و طاقت ہے اور اسی سے ملت اسلامیہ کی وحدت کے راز کی حفاظت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 890831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش