0
Sunday 27 Dec 2020 11:06

کیا فلسطین ختم ہو جائے گا؟؟

کیا فلسطین ختم ہو جائے گا؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

اسلام دشمن اور اسرائیل دوست قوتیں اب صرف ایک مشن پر گامزن ہیں کہ فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اس پورے علاقے کو اسرائیل ڈکلیئر کر دیا جائے۔ اس حوالے سے اب اسرائیل بھی بچے کھچے فلسطین پر شب خون مارنے کا منصوبہ بنا چکا ہے اور نئے سال کے آغاز کیساتھ ہی یہ مہم شروع ہو جائے گی اور مغربی کنارے سمیت دیگر علاقوں پر قبضے کو وسعت دی جائے گی۔ اس حوالے سے اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے ملکوں نے بھی اسرائیل کو گرین سگنل دیدیا ہے۔ یہ ملک فلسطین کے معاملے میں دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے ان عرب ملکوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو اس لئے تسلیم کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی بقاء کیلئے ان سے دوست بن کر بہتر انداز میں بات کرسکیں، جبکہ اسرائیلی و امریکی حلقوں میں ان کا موقف تبدیل ہو جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے ممالک چاہتے ہیں کہ فلسطین کا پورا علاقہ اسرائیل کے دائرہ اختیار میں دے کر فلسطین کو مکمل ختم کر دیا جائے اور پورے کا پورا علاقہ اسرائیل بن جائے۔ اس میں فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کے طور پر وہ اتنا بھی کہہ دیتے ہیں کہ اسرائیل میں فلسطینیوں کو اقلیت قرار دے کر ان کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ وہ مبصرین جو پہلے دو ریاستی حل کی بات کرتے تھے، اب اپنی بات سے انکاری ہوتے جا رہے ہیں اور امریکی آشیر باد سے ان کی رائے تبدیل ہوچکی ہے۔ اب دو ریاستی حل کی بجائے یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ فلسطینی اسرائیلی کنٹرول میں زیادہ محفوظ رہیں گے اور روز روز کی اس جنگ سے بھی انہیں نجات مل جائے گی۔ یہ مبصرین اور اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے عرب ممالک شائد یہ بھول گئے ہیں کہ اسرائیل کی سرحدیں صرف اردن، لبنان، شام اور مصر تک ہی محدود نہیں رہنی بلکہ اسرائیل کا "نیو ورلڈ آرڈر" کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔

اس حوالے سے فلسطین سے ہاتھ دھو کر یہ ملک بھی چین کی نیند نہیں سوئیں گے بلکہ اسرائیل کی زد میں آئیں گے اور اسرائیل اگر فلسطین کو ہضم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو پھر اگلے لقمے اردن، مصر اور شام سمیت لبنان ہوں گے۔ اسرائیل کی سرحدیں محدود نہیں، بلکہ گریٹر اسرائیل کے شیطانی منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔ گریٹر اسرائیل کے اس شیطانی منصوبے کے چار بنیادی اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔ ان چار اہداف میں پہلا، خوفناک اور بڑی جنگ ہے، دوسرا، مسلمانوں کے دو اہم ترین مقامات کی مسماری، تیسرا، معبد کی تعمیر اور چوتھا حضرت داود علیہ السلام کی تاج پوشی کیلئے استعمال ہونیوالے پتھر، جسے یہودی تھرون آف ڈیوڈ کہتے ہیں، کو نو تعمیر شدہ معبد میں رکھنا شامل ہے۔ 1897ء میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ تیار کیا گیا تھا۔ اس نقشے میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ دنیا بھر سے ڈیڑھ کروڑ یہودیوں میں سے صرف 35 لاکھ اسرائیل میں آباد ہیں۔ باقی دنیا بھر میں موجود یہودیوں کو بھی لاکر یہاں آباد کیا جانا ہے، جس کیلئے انہیں زمین کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے مصر، اردن ان کیلئے آسان ٹارگٹ ہیں۔

پہلے بھی اسرائیل اردن سے مشرقی یروشلم کا علاقہ چھین چکا ہے۔ 1967ء میں یہ علاقہ اردن کا تھا۔ مسلمانوں میں "امت کا درد" ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ مسلمان اسرائیل کی بیعت کرچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لشکر ِیزید میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں جبکہ جو باقی ہیں، ان میں ایران کے سوا کوئی ایسا مسلمان ملک نہیں، جو سینہ تان کر کھڑا ہو۔ ترکی جو خود کو خلافت عثمانیہ کا علمبردار کہتا نہیں تھکتا، اب وہ بھی یزید (اسرائیل) کے قدموں میں غیر مشروط طور پر بیٹھ گیا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں احتجاجی لہر کو مہمیز کیا۔ اس لہر (عرب بہار) کے باعث لبنان، تیونس، عراق، لیبیا اور یمن سمیت دیگر ممالک میں ایک احتجاجی سلسلہ شروع ہوا۔ ایران میں بھی کوشش کی گئی کہ پُرتشدد مظاہرے کروا کر موجودہ انقلابی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، مگر ایران کی قیادت نے بروقت مظاہروں کو کنٹرول کرکے استعمار کی سازشیں ناکام بنا دیں۔ شام میں ایران اور روس نے مل کر امریکہ کو عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا اور بشارالاسد کی حکومت کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ امریکہ کو ہزیمت بھی اُٹھانا پڑی۔

اسرائیل کے ہمسایہ ممالک میں بدامنی پھیلا کر ان کی حکومتوں کو اُدھر مصروف کرکے اِدھر اسرائیل کی سرحدوں کو وسعت دینے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا تھا، جسے عملی شکل نہ مل سکی۔ پھر سنچری ڈیل کا ناپاک منصوبہ پیش کیا گیا کہ فلسطینی اپنی زمین اسرائیل کو فروخت کرکے خود ہمسایہ ممالک میں جا کر پناہ لے لیں یا وہاں کی شہریت لیکر اسی ملک کے شہری بن جائیں۔ اس حل کو بھی فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ یہودیوں نے گوگل سے تو فلسطین کا نقشہ ہٹوا کر اس منصوبے پر عملدرآمد کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔ اب ماحول ایک عالمی جنگ کی طرف لے جانے کیلئے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک اسرائیل کیساتھ کھڑے ہوں گے جبکہ دوسری جانب ایران اور فلسطین سمیت مظلوم فلسطینی عوام کے حامی ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں معرکہ حق و باطل ایک بار پھر سجنے کو تیار ہے۔ یزیدِ عصر نے ایک بار پھر وقت کے حسین کو للکارا ہے۔ لیکن اس جنگ میں بھی شکست یزیدیت کا مقدر ٹھہرے گی اور فلسطین کو مٹانے والوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ "جاء الحق و زھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا" حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے کیلئے ہی ہے، فلسطین کو ختم کرنیوالے ان شاء اللہ خود ختم ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 906443
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش