0
Thursday 31 Dec 2020 16:44

سال 2020ء کے آخری دن ٹرمپ انتظامیہ پر ایک اور کاری ضرب

سال 2020ء کے آخری دن ٹرمپ انتظامیہ پر ایک اور کاری ضرب
اداریہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس بات کی مجاز ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام کے لیے بجٹ مختص کرے، جسے سلامتی کونسل اپنے واضح فیصلے کے ذریعے مسترد کرچکی ہو، لیکن چونکہ امریکہ عالمی اداروں میں تسلط کا عادی ہوچکا ہے، لہذا وہ ایران کے خلاف ہر موقع سے فائدہ اثھانے کی کوشش کرتا ہے۔ 2020ء کے آخری دن بھی امریکہ نے اسی طرح کی ایک کوشش کی۔ امریکہ اقوام متحدہ کے دو ہزار اکیس کے بجٹ میں ایران کے خلاف پابندیوں کے لیے خصوصی کمیٹی کی بحالی کی غرض سے دو شقوں کا اضافہ کرانا چاہتا تھا۔ اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے اسحاق آل حبیب نے امریکہ کے اس اقدام کو سیاسی محرکات کا حامل قرار دیتے ہوئے واشنگٹن کی تجویز پر رائے شماری کرانے کا مطالبہ کر دیا۔

امریکہ اقوام متحدہ کے دو ہزار اکیس کے بجٹ میں ایران کے خلاف پابندیوں کے لیے خصوصی کمیٹی کی بحالی کی غرض سے دو شقوں کا اضافہ کرانا چاہتا تھا، جس کی عالمی ادارے کے ایک سو بیالیس ارکان نے مخالفت کی اور واشنگٹن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکی مندوب کی دلیل یہ تھی کہ امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکل چکا ہے اور واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اب اس معاہدے کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں، لہذا ایران کے خلاف پابندیوں کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کو اپنا کام دوبارہ شروع کر دینا چاہیئے۔ دس ملکوں نے امریکی مطالبے کی حمایت کی، ایک سو دس نے کھل کر مخالفت کی، جبکہ بتیس ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

امریکہ کا یہ اقدام ایٹمی معاہدے کو نابود کرنے کی کوشش ہے، حالانکہ اس سے پہلے ٹریگر میکنیزم کو فعال بنانے کی امریکی کوشش کو بھی سلامتی کونسل کے تیرہ ارکان نے مسترد کر دیا تھا اور یہ بات واضح کر دی تھی کہ صرف ایٹمی معاہدے کے فعال ارکان ہی اس میکنیزم سے استفادے کا حق رکھتے ہیں۔ یو این او کے چارٹر کے مطابق امریکی اقدام کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے، کیونکہ جنرل اسمبلی اس بات کی ہرگز مجاز نہیں ہے کہ وہ اس کام کے لیے بجٹ مختص کرے، جسے سلامتی کونسل اپنے واضح فیصلے کے ذریعے مسترد کرچکی ہو۔ ووٹنگ میں حالیہ شکست 2020ء کا آخری طمانچہ تھا، جو ٹرمپ حکومت کے منہ پر پڑا ہے۔
خبر کا کوڈ : 907260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش