2
Thursday 21 Jan 2021 20:30

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
تحریر: سویرا بتول

شبِ جمعہ یعنی شبِ یاد خدا، شبِ مناجات باخدا، شبِ یادِ شہدا۔۔ شبِ جمعہ شہداء کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں، حتی ذکرِ صلوات کے ساتھ۔ شہداء کے وصیت ناموں کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ شہداء ہر چھوٹی بات کا خیال رکھا کرتے تھے، حتی کہ وہ باتیں جو شاید ہماری نظر میں بہت معمولی ہیں، شہداء اُن کے حوالے سے بھی بہت محتاط رہا کرتے تھے۔ ہم جو بمشکل واجبات کو ادا کر پاتے ہیں، اِس کے مقابلے میں شہداء مستحبات کی انجام دہی میں بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف رہتے تھے۔ محاذ پر جہاں مشکل سے غذا اور پانی میسر آتا تھا، اُن سخت حالات میں شہداء اپنے پورے ہفتے کا پانی بچا کر رکھتے، تاکہ جمعہ کا غسل کرسکیں۔ ہم جو اِس میڈیا وار کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں اپنی عفت و حیاء کا تحفظ ناممکنات میں سے لگتا ہے، وہی کچھ پاک طینت و نیک فطرت فرزندانِ اسلام بھی نظر آتے ہیں، جو ہر وقت اپنی پاک نگاہوں کو نامحرم سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ یہ نگاہیں اپنے امامِ وقتؑ کی زیارت کرسکیں۔

اس بے وفا دنیا میں زندگی گزارنا یقیناً بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ مرنا تو ہے ہی ایک دن۔ کیا بہتر نہیں کہ راہِ اہلِ بیت علیہم سلام میں شہید ہو جایا جائے۔ غلط نہ سوچیں کہ شہداء زندگی سے تنگ تھے بلکہ انہوں نے دنیا سے دل نہیں لگایا اور ہم دنیا کے دلداہ لوگ ہیں، ہمیں دنیا کی رنگینیاں بھی چاہیئں اور شہادت بھی۔ یقیناً ہم سب یہ دنیا ہر صورت میں چھوڑ کر جائیں گے۔ موت حقیقت ہے، جب احمدِ مرسلﷺ نہ رہے تو کون رہے گا۔؟ اس لیے بہتر نہیں کہ آخرت کا سوچا جائے۔ اپنے لیے ایک بہترین ابدی حیات کا انتخاب کیا جائے۔ مگر ہم دنیا پرستی میں مشغول ہیں۔ آج دنیا کی ہر شے کو خوبصورت بنا دیا گیا، یا خوبصورت بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور ہم سب اِس دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔

جس کی طرف نہج البلاغہ میں امام المتقین علی ؑابنِ ابی طالب نشاندہی کرتے ہیں کہ تم دنیا کی طرف مائل ہوچکے ہو، تم نے کنجوسی کو اپنا لیا ہے اور تم نے اِس چیز کو چھوڑ دیا ہے، جس میں تمہاری عزت و سعادت ہے۔ ہر روز تم پر ظلم ہو رہا ہے اور پھر بھی تم خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوتے اور تمہاری کاہلی ختم نہیں ہو رہی۔ تمہارے دشمن کی مکمل تباہی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تُم تو اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرو اور تُمہارا دشمن خدا کی نافرمانی کرے۔ جب تک حب الدنیا کو دل سے نہیں نکالیں گے، حقیقتاً اُس وقت تک کمال کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بلاشبہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ شہادت سعادت اور کمال حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ انسان کیسے اِس چند روزہ زندگی سے ہمیشہ کے لیے سعادت اور کمال حاصل کرسکتا ہے اور دائمی حیات کی نعمتوں اور سعادتوں کو یقینی بنا سکتا ہے۔ یقیناً یہ شہادت ہی ہے، جس سے یہ مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

شہید ہونے کے لیے شہید جیسی زندگی بسر کرنا ضروری ہے۔ شہادت مذاق نہیں، وہ تمہارے وجود کو سونگھتے ہیں، اگر اُس میں سے دنیا کی بو آرہی ہو تو زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بڑے بخت والے ہیں، جو اس مقام کو پاتے ہیں۔ شہادت عشق ہے اور عشق ہر ایک کو نہیں ملتا۔ کچھ جوان خود شہادت کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ خوش نصیب ہیں وہ جوان کہ جن کا شہادت خود انتخاب کرتی ہے۔؎
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ زندگی چراغِ زیبا لیکر

شہداء کی زندگی کا مشاہدہ کریں، تاکہ درس لیں کہ کس طرح اپنے فانی وجود کو بلند مقام تک لے جایا جا سکتا ہے۔ شجاعت، جرات، وفا و صبر و استقامت کا درس لیں اور اپنے نفس سے جہاد کا آغاز کریں۔ خدا سے دعا کریں کہ اپنے شہیدوں کے لہو کو ہماری رگوں میں جاری کرے، تاکہ زندگی کی ہوس نہ کریں۔ شہادت کے لیے نہ کسی ہتھیار کی ضرورت ہے اور نہ اسلحہ کی، فقط ایک دل کی ضرورت ہے، جس میں صرف خدا بستا ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے دل کے ایک گوشے کو شہید کریں، تاکہ لقاء الہیٰ کے جام کو پی سکیں۔
خبر کا کوڈ : 911593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش