0
Monday 8 Feb 2021 09:20

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(4)

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(4)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

یمن کا موضوع اس وقت نہ صرف مشرق وسطیٰ کے اہم ترین موضوع میں تبدیل ہوچکا ہے بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بھی اس کو پوری شدت و حدت سے زیربحث لایا جا رہا ہے۔ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی وزارت خارجہ میں جو اہم پالیسی خطاب کیا ہے، اس میں یمن کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جو بائیڈن کی طرف سے یمن کی سب سے مضبوط اور بڑی تنظیم انصاراللہ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنا مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کو ہتھیار نہ دینے کا اعلان بھی اس تناظر میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ امریکہ کے ان اقدامات کو ایک نئی سازش کا پیش خیمہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

یمن کے موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں یمن کے خصوصی نمائندے مارٹین گریفش ایران کے دورے پر آچکے ہیں اور ان کی ایران کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ ان ملاقاتوں کا احوال تو اگلی قسط میں بیان کریں گے، تاہم اس قسط میں امریکی اقدامات کا تجزیاتی جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب یمن کے مجاہدین کو پے در پے کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں، امریکہ کی طرف سے انصار اللہ کو عارضی طور پر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے پیغامات اور اہداف کیا ہوسکتے ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ کی اس چال کو سمجھنے کے لیے ضرروی ہے، کیا امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سوال کا جواب منفی ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کا محوری نکتہ اسرائیل کا تحفظ اور مزاحمتی بلاک کا خاتمہ یا اسے کمزور کرنا ہے۔

امریکہ نہ صرف اسرائیلی تحفظ کو اپنی ترجیحات سے خارج کرسکتا ہے اور نہ ہی ایران کی زیر قیادت مزاحمتی اور مقاومتی بلاک کو خطے میں مزید مضبوط ہونے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لہذا انصار اللہ کے بارے میں امریکی اتنظامیہ کے اس فیصلے کو اسٹریجی یا ویژن میں تبدیلی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اسے ایک ہتھکنڈہ اور حربہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یمن کے امور پر کڑی نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے یہ باور کر لیا ہے کہ انصار اللہ یمن کی ایک ناقابل شکت قوت میں تبدیل ہوچکی ہے، اس کی حیثیت اور سیاسی وجود کو تسلیم کیے بغیر امریکہ یمن میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا، لہذا امریکی انتظامیہ نے اسے دہشت گردوں کی فہرست سے نکال کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وائٹ ہائوس انصاراللہ کو ایک فیصلہ کن جماعت کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور یمن کے بارے میں آئندہ قریب میں ہونے والے مذاکرات میں شامل کرنے کا خواہش مند ہے۔

امریکہ انصار اللہ کو اپنے اتحادیوں خاص طور پر سعودی عرب کے ذریعے میدان جنگ میں تو شکست نہیں دے سکا، لیکن اب اسے مذاکرات کی میز پر لا کر اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ انصاراللہ کے بارے میں مثبت بیان بازی سے اس جماعت کی قیادت پر اپنا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یمن کی انقلابی کمیٹی کے سربراہ محمد علی حوثی نے امریکی صدر کے اس بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ابھی تک امریکی صدر جوب ائیڈن کے اس موقف کو الفاظ اور بیان کی حد تک سمجھتے ہیں۔ ہم جنگ کا خاتمہ اور یمن کے محاصرے کے خاتمے کے منتظر ہیں۔ محمد علی حوثی کے بقول ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ امریکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے جاری حملوں کو روکنے جیسے عملی اقدامات انجام دے۔

انصار اللہ کے رہنماء کے اس بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں امریکہ اور اس کے صدر کے بیان پر اعتماد نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عملی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی صدر کے اس بیان پر سعودی عرب کا کوئی باقاعدہ ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے، البتہ متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش نے ایک ٹوئٹ ضرور کیا ہے۔ قرقاش کے ٹوئٹ میں آیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی اکتوبر 2020ء سے یمن میں کسی طرح کی فوجی موجودگی نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے اس فرد کی طرف سے یہ بیان اس ملک کی وزارت خارجہ اور حکومت کی کی بدحواسی کو ظاہر کر رہا ہے، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ امریکہ یمن کے حوالے سے مستقبل میں کیا کرنے والا ہے۔ البتہ انور قرقاش کے اس ٹوئٹ کے جواب میں یمن کی مستعفی حکومت کے نائب وزیر اطلاعات محمد تیزان نے طنزیہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میڈیا کی وجہ سے ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات بدستور یمن میں موجود ہے۔

یمن کے سیاسی کونسل کے رہنماء نے اسی تناظر میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے رکن نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یمن کی جنگ اسی وقت ختم ہوگی، جب فضائی حملوں کا سلسلہ بند اور محاصرہ ختم ہو جائے گا۔ یمن کی سیاسی کونسل کے رہنماء محمد البخیتی نے المیادین ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر امریکی حکومت سچائی سے کام کرے اور سعودی عرب اور جارح سعودی اتحاد کی حمایت ترک کر دے تو یمن جنگ ختم ہو جائے گی۔ محمد البخیتی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن مذاکرات کے لیے پیش گوئی کرنا صحیح نہیں تھا۔ یمن کی سیاسی کونسل کے رکن نے زور دے کر کہا ہے کہ ہم امریکہ کے عملی اقدامات کا انتطار کر رہے ہیں اور کسی کے بیان پر بھروسہ نہیں کرتے۔

یمن کی تحریک انصار اللہ کی انقلابی کمیٹی کے سربراہ نے بھی کہا ہے کہ جنگ کا سلسلہ بند ہونا اور امریکہ کی جانب سے جارحین کو کنٹرول کرنا پہلا مرحلہ ہے، جو واشنگٹن کی جانب سے انجام پانا چاہیئے۔ یمن خطے کا فلش پوائنٹ بن چکا ہے اور اس ملک کے حوالے سے امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تینوں ملزمین نہیں مجرمین کی صف میں کھڑے ہیں۔ یمنی مجاہدین نے اپنی قربانیوں اور عزم و ارادے سے اس ملک کے دشمنوں کے چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یمن میں ایران کا کیا مفاد ہے اور یمن کے بحران کا ایران کے پاس کیا حل ہے اور اقوام متحدہ کے یمن کے امور میں خصوصی نمائندے ایران میں کیا پیغام لے کر آئے ہیں، اس پر اگلی قسط میں روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 914991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش